|
سری نگر — بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی اتحادی جماعتوں کو لوک سبھا انتخابات میں چھ میں سے صرف دو نشستوں پر کامیابی ملی ہے جسے بعض مبصرین نریندر مودی کی جمات کے لیے بڑا سیاسی دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
لیکن مقامی سیاسی حلقوں میں سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کی شکست سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے۔
بی جے پی اور اس کے حلیف اپنے ان اہم سیاسی حریفوں کی ہار کو اپنے لیے خوشی اور باعثِ تسکین قرار دے رہے ہیں۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انتخابی نتائج اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عوام نے عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کو اُن مبینہ زیادتیوں، نا انصافیوں اور ریاستی تشدد کے لیے معاف نہیں کیا جن کا انہیں ان کے ادوار میں سامنا کرنا پڑا تھا۔
لوک سبھا الیکشن کے دوران سوشل مڈیا پر ان واقعات کی بازگشت سنائی دی گئی تھی جو عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں پیش آئے تھے۔
ماضی کے واقعات لوگوں کے ذہنوں پر حاوی
صحافی اور تجزیہ کار ارون جوشی کہتے ہیں کہ محبوبہ مفتی نے اپنے آبائی حلقے اننت ناگ کا انتخاب غالباً یہ سوچ کر کیا کہ 2004 اور 2014 کے الیکشن میں وہ وہاں سے کامیاب ہوئی تھیں۔
لیکن ان کے بقول وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہیں کہ لوگ انہیں یا ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو ماضی میں بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کے لیے معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
ان کے بقول "بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کو کشمیر میں ایک گناہ سمجھا جاتا ہے بالخصوص نئی دہلی کی جانب سے آئینِ ہند کی دفعہ 370کو منسوخ کرنے کے بعد سے۔"
SEE ALSO: بی جے پی کی نشستوں میں کمی: ’ بھارت نے مودی کو پیغام دے دیا ہے‘واضح رہے کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے 2014میں کرائے گئے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے بعد بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی جس کی سربراہی محبوبہ مفتی کے والد مفتی محمد سعید کر رہے تھے۔ جنوری 2016 میں ان کے انتقال کے بعد محبوبہ مفتی وزیرِ اعلیٰ بنی تھیں۔
منگل کو آنے والے الیکشن نتائج میں محبوبہ مفتی کو جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے امیدوار میاں الطاف احمد نے دو لاکھ 81 ہزار سے زیادہ ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی ہے۔
لیکن اسی پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ کو بارہمولہ کی نشست پر ایک 'ڈارک ہارس' انجینئر عبدالرشید شیخ نے شکست دی ہے۔
عمر عبد اللہ کو اُن کے مقابلے میں دو لاکھ چار ہزار ووٹ کم ملے ہیں۔مقامی سیاسی حلقوں میں اسے سابق وزیرِ اعلیٰ کے لیے باعثِ سبکی اور پریشانی سمجھا جا رہا ہے۔
چھپن سالہ انجینئر رشید ماضی میں جموں و کشمیر اسمبلی کے لیے دو بار ایک آزاد رکن کی حیثیت سے منتخب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے عوامی اتحاد پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی قائم کی ہے۔
انہیں بھارت کے تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے تقریباً پانچ برس پہلے مبینہ منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنڈنگ کے ایک کیس میں گرفتار کیا تھا جب سے وہ دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔
ان کی عدم موجودگی میں ان کے لیے ان کے بیٹوں ابرار رشید اور اسرار رشید نے انتخابی مہم چلائی۔ مہم کے دوراں لوگوں کو بتایا گیا کہ انجینئر رشید کو این آئی اے نے ایسے الزامات میں گرفتار کیا تھا جنہیں وہ آج تک ثابت نہیں کرسکی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کار پروفیسر محمد سلیم کہتے ہیں کہ "ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے انجینئر رشید کے بیٹے انہیں عوام میں ایک مظلوم کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہوگئے۔"
ان کے بقول وہ لوگوں کو یہ بھی یاد دلاتے رہے کہ ان کے والد کو 2005 میں جموں و کشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ نے علحیدگی پسند عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد انہوں نے ساڑھے تین ماہ جیل میں گزارے تھے۔ لیکن عمر عبداللہ جو اُس وقت لوک سبھا کے ممبر تھے خاموش تماشائی بنے رہے تھے جب کہ مفتی محمد سعید جموں و کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔
ابرار رشید نے صحافیوں کو بتایا کہ اُن کے والد کی جیت نہ صرف بارہمولہ بلکہ پورے کشمیر کے عوام کی جیت ہے کیوں کہ انہوں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ہے اور مظلوموں کی حمایت کی ہے۔ لوگوں نے اس کا بدلہ ان کے لیے پیار و محبت اور اعتماد کے اظہار سے کیا ہے۔
کشمیر کے صدر مقام سرینگر کی نشست نیشنل کانفرنس کے حق میں گئی ہے اور اس کے امیدوار آغا سید روح اللہ مہدی نے پی ڈی پی کے امیدوار وحید الرحمٰن پّرہ کو شکست دی ہے۔
لداخ خطے کی واحد نشست پر آزاد امیدوار حاجی محمد حنیفہ جان نے کامیابی حاصل کی ہے۔ بی جے پی نے لداخ کی واحد لوک سبھا سیٹ 2014 اور 2019 کے انتخابات میں جیتی تھی اور اسے ہیٹ ٹرک کرنے کی قوی امید تھی لیکن حاجی حنیفہ جان نے اس پر پانی پھیر دیا۔
انتخابی مہم کا محور دفعہ 370 کی منسوخی
نئی دہلی کی جانب سے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ جموں و کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کرنے، ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور اسے براہِ راست وفاقی کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے اقدامات کے بعد یہ پہلے انتخابات تھے۔
اپوزیشن جماعتوں اور ان کے امیدواروں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران 'ظلم کا بدلہ ووٹ سے' کا نعرہ لگایا۔ وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ یہ انتخابات سڑک، پانی، بجلی اور لوگوں کو درپیش اس جیسے دیگر مسائل کے لیے نہیں بلکہ پانچ سال پہلے بھارتی حکومت کی طرف سے ان کے بقول اٹھائے گئے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کے خلاف ایک ریفرنڈم ہے۔
'لوگوں کا حافظہ کمزور نہیں ہے'
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر، پیر پنجال اور لداخ بالخصوص مسلم اکثریتی کرگل کے لوگوں نے بی جے پی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
ان کے بقول اگر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی یہ الیکشن ہار گئے ہیں تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام کوششوں کے باوجود عام کشمیری مسلمانوں میں اپنی اُس شبیہ کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں جو ماضی میں اُن کے نئی دہلی کے قریب ہونے کی وجہ سے بن گئی تھی۔
SEE ALSO: بھارتی انتخابات کے نتائج: کیا پاکستان کی پالیسی میں کوئی فرق آئے گا؟انہوں نے کہا "وہ جب وزیرِ اعلیٰ تھے تو کشمیر میں کافی انسانی خون بہا۔ محبوبہ مفتی اور عمر عبد اللہ کے دورِ حکومت میں ایک، ایک سو سے زائد نوجوان اور بچے گولیوں کا شکار بنائے گیے۔ مظاہرین کے خلاف پیلٹ گنوں کے استعمال کے نتیجے میں درجنوں افراد نے اپنی بینائی کھو دی۔ سینکڑوں لوگ قید کیے گئے اور ان کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے سخت گیر قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گیے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ''لگتا ہے کہ لوگ یہ سب نہیں بھولے ہیں اور انہوں نے دونوں کو سزا دی ہے۔"
سرینگر کے ایک شہری عبد الاحد نجار کہتے ہیں کہ "لوگ ناخوشگوار واقعات کو یاد کرکے تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ سیاست دان یہ نہ سمجھیں کہ لوگوں کا حافظہ کمزور ہے۔"
نیشنل کانفرنس کو اننت ناگ او ر سرینگر میں کامیابی کیسے ملی؟
ارون جوشی کا کہنا ہے کہ جہاں تک سرینگر اور اننت ناگ۔راجوری نشستوں پر نیشنل کانفرنس کے امیدواروں کی جیت کا تعلق ہے تو کامیاب امیدوار آغا روح اللہ اور میاں الطاف اپنے ذاتی ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے لوگوں کے لیے بہتر انتخاب تھے۔
ان کے بقول روح اللہ وادی کشمیر کے ایک مقبول شعیہ مذہبی خاندان سے ہیں جب کہ میاں الطاف گجر قبیلے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط تھے۔
تاہم محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی جنہوں نے اپنی والدہ کے لیے زور دار مہم چلائی تھی سمجھتی ہیں کہ ان انتخابات کے نتائج سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ کشمیر میں ایک طاقت ور جذبہ ہے۔ اور مذہبی اثر و رسوخ اچھی حکمرانی اور ترقی کے ایجنڈے کو دباتا اور پیچھے دھکیل دیتا ہے۔
جموں میں بی جے پی کی کامیابی کا راز کیا تھا؟
بی جے پی نے جموں اور ادھمپور کی نشستیں لگاتار تیسری مرتبہ جیت لی ہیں۔ تجزیہ کار ارون جوشی اسے انتہائی ہندو۔مسلم پولرائزیشن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ "جموں خطے کی دونوں نشستیں بی جے پی نے انتہائی ہندو۔مسلم پولرائزیشن کی وجہ سے جیتی ہیں۔ اس پولرائزیشن نے ڈاکٹر جتیندر سنگھ اور جُگل کشور کو اس کے باوجود کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی حیثیت سے ان کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے، فائدہ پہنچا دیا۔"
SEE ALSO: بھارتی انتخابات میں منقسم مینڈیٹ: ’مودی اپنی مرضی سے حکومت نہیں چلا پائیں گے‘ان کا کہنا تھا کہ "نفرت کی سیاست ہندو اکثریتی خطے میں ان کے لیے منافع بخش ثابت ہوئی ہے۔"
تاہم بی جے پی کی جموں وکشمیر شاخ کے صدر رویندر رینہ کا کہنا تھا کہ جموں اور ادھمپور کے رائے دہندگان نے ایک مرتبہ پھر وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی پارلیمان کے ان انتخابات کے نتائج لداخ سمیت جموں و کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر ضرور اثر انداز ہوں گے اور اس کا فوری نتیجہ عنقریب ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات کے دوران نظر آئے گا۔