بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جہاں گزشتہ تین مہینوں سے جاری بے چینی اور احتجاج میں عید کے بعد سے نمایاں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ جمعے کے روز ضلع بڈگرام میں، جہاں پانچ روز سے سخت کرفیو نافذ ہے، حکومت مخالف ایک مظاہرے پر بھارتی پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے۔ جون میں شروع ہونے والے ان مظاہروں میں اب تک 95 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مظاہرے روکنے کے لیے علاقے میں بھاری تعداد میں فوج اور پولیس کمانڈوز تعینات کیےگئے ہیں۔ بھارتی حکومت نے صورت حال کا جائزہ لینے اور اس کا حل ڈھونڈنے کے لیے ایک آل پارٹی وفد کشمیر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
واشنگٹن میں موجود مبصرین کا کہناہےکہ اس مرتبہ یہ تحریک پہلے کے مقابلے میں مختلف ہے کیونکہ مظاہرین نے بھارتی سیکیورٹی فورسز پر مسلح حملے نہیں کیے۔ والٹر انڈرسن کا تعلق واشنگٹن کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے ہے۔ وہ کہتے ہیں اس مرتبہ ہمسایہ ملک پاکستان کو ان مظاہروں کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان وہ ہیں جو یہیں پیدا ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھارتی حکومت کے الزامات میں کچھ حقیقت تھی کہ اس قوت زیادہ تر لوگ سرحد پار سے آتے تھے۔ شاید ایسا اب بھی ہوتا ہو، مگر یہ تحریک علاقے کے اندر سے اٹھی ہے۔
بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے بھی اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کی صورت حال پر ہونے والی ایک کل جماعتی کانفرنس میں کہا کہ میں نوجوان مرد و خواتین اور بچوں کو گلیوں میں مظاہرہ کرتے دیکھ کر حیران اور پریشان ہوا ہوں۔ کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرنے والی جماعت حریت اتحاد کے راہنما اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
غلام نبی فائی واشنگٹن میں کشمیری امریکن کونسل کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر یوں کی اکثریت آزادی چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کی صورت حال کے پیش نظر بھارت کو یقین ہے کہ وہ زیادہ دیر تک وہاں اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ کشمیریوں کا جذبہ ہے۔ ان کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ بھارتی فوج کی بندوق کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آپ ایسی قوم کوشکست نہیں دے سکتے۔
کشمیر کی علیحدگی پسند جماعت حریت کی لیڈر شپ نے بھارتی حکومت کے سامنے اپنا یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ علاقے میں امن کے قیام کے لیے جموں اور کشمیر سے فوج کو نکال دیا جائے۔ جبکہ ریاستی وزیرِ اعلی عمر عبدالله بھی پہلے سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ خصوصی اختیارات کے متنازعہ قانون آرمڈ فورسز سپیشل ایکٹ کو ختم کیا جائے یا اس میں ترامیم کی جائیں، مگر کل جماعتی اجلاس میں اس پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ شالینی وین تولی امریکن یونیورسٹی کے سکول آف انٹرنیشنل سروس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کے مطابق بھارتی عوام کو یہ علم ہوچکاہے کہ کشمیر کے مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کشمیر کے مسئلے کو پہلے کی نسبت عام طریقے سے دیکھنا ہو گا جیسا ہم دوسری ریاستوں میں کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہر عمر اور طبقے کے لوگوں کو اکٹھے ہونے اور مظاہرے کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہمیں انہیں سیاست میں شامل کرنا ہو گا تاکہ ان کی آواز ہر فیصلے میں شامل ہو اور ان کا مستقبل ان کے ہاتھ میں ہو اور بھارت ایسا صرف اسی صورت کر سکتا ہے کہ وہ انہیں دبانے والی ریاستی طاقت میں کمی کے لیے متواتر اقدامات کرے۔ ایسا بندوق کی نوک پر نہیں کیا جا سکتا اور یہ کام بندوق کی نوک پرہوگا بھی ۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر میں فوج کے اختیارات میں کمی کے سوا کوئی بھی اقدام کو قبول نہیں کریں گی۔ مبصرین نے بھارتی حکومت کی طرف سے سیاسی راہنماوں کے وفد کو کشمیر کی صورتِ حال جا ئزہ لینے کے لیے وفد بھیجنے کو مثبت اقدام قرار دیا ہے مگرکشمیر کی سیاسی اپوزیشن پارٹیوں اور علیحدگی پسند راہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے۔ کسی بھی سطح کے مذاکرات کی کامیابی کے لیے فوج کا انخلا اور زیر حراست مظاہرین اور سیاسی کارکنوں کی رہا ئی ضروری ہے۔