بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کُلگام میں اتوار کو عسکریت پسندوں اور فوج میں جھڑپوں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے بعد وادی میں صورت حال ایک بار پھر کشیدہ ہو گئی ہے۔
پیر کو وادی کشمیر میں شہریوں کی ہلاکتوں کے خلاف استصواب رائے کا مُطالبہ کرنے والی جماعتوں کی اپیل پر کی جا رہی عام ہڑتال کی وجہ سے معمولاتِ زندگی مُتاثر ہوئے۔
بیشتر دُکانیں اور کاروباری مراکز بند ہیں اور سڑکوں پر صرف نجی گاڑیاں، آٹو رِکشا اور مخصوص روٹوں پر مختصر پبلک ٹرانسپورٹ سروسز چل رہی ہیں۔
پورے کلگام ضلح میں اور قریبی شوپیان قصبے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جب کہ گرمائی دارالحکومت سرینگر کے ساتھ ساتھ پوری وادی کشمیر میں حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیئے گئے ہیں۔
پولیس نے سماجی ویب سائٹس کے ذریعے پھیلائی جا رہی اِن افواہوں کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے کہ حفاظتی دستوں کہ فائرنگ میں زخمی ہونے والے شہریوں میں سے چند ایک اسپتال میں چل بسے ہیں۔
اس دوران پولیس نے خواتین کی قدامت پسند تنظیم دُخترانِ مِلت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی کو سرینگر میں اُن کے گھر پر ایک چھاپے کے دوران گرفتار کر لیا۔
تنظیم کی ترجمانِ اعلیٰ اور جنرل سیکریٹری ناہیدہ نصرین نے بتایا کی سیدہ آسیہ اور اُن کی پرسنل سیکریٹری صوفی فہمیدہ کو سرینگر کے راج باغ علاقے میں واقع خواتین پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے۔
54 سالہ سیدہ آسیہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ اِلحاق کی زبردست حامی ہیں اور ایک طویل عرصہ جیل میں گزار چکی ہیں۔ اُن کے شوہر ڈاکٹرعاشق حسین فکٹو عرف محمد قاسم جو عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے ایک بانی رہ چکے ہیں گزشتہ 24 برس سے جیل میں بند ہیں۔
ادھر بھارتی فوج نے سرینگر کے بادامی باغ کنٹونمنٹ میں مُنعقدہ ایک تقریب پر اُن دو سپاہیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جو اتوار کے جھڑپ میں مارے گئے تھے۔
بھارتی فوج کی چِنار کور کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل کے کے پنت نے کور کمانڈر اور تمام صفوں کی طرف سے مارے گئے سپاہیوں کے تابوتوں پر پھولوں کے ہار رکھے۔
کُلگام کے فِرسل علاقے میں اتوار کو علی الصُبَح شروع ہونے والی جھڑپ میں چار عسکریت پسند، ایک شہری اور دو بھارتی فوجی ہلاک جب کہ چار اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
بعد ازاں اتوار ہی کو ان ہلاکتوں کے بعد ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک 22 سالہ شہری مشتاق ابراہیم احمد ایتو ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہو گئے۔
حزبِ اختلاف کی علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس اور استصوابِ رائے کا مُطالبہ کرنے والی کشمیری تنظیموں نے حفاظتی دستوں پر مُظاہرین پر بے دریغ گولیاں چلانے اور تشدد ڈھانے کا الزام عائد کیا تھا۔
جب کہ علیحدگی پسند کشمیری جماعتوں نے شہری ہلاکتوں کے خلاف پیر کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں عام ہڑتال کے لیے اپیل جاری کی تھی۔
واضح رہے کہ اتوار کو جھڑپ میں زخمی فوجیوں، جن میں ایک میجر بھی شامل ہے، کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے سرینگرکے ایک فوجی اسپتال میں منتقل کیا گیا۔
جھڑپ میں عسکریت پسندوں کے مارے جانے کی خبر کے پھیلنے کے ساتھ ہی سینکڑوں لوگ سڑکوں پر آ گئے اور بھارت سے آزادی کے مُطالبے کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے اُس نجی مکان کی طرف بڑھنے لگے جہاں ملبے کے نیچے مارے گئے عسکریت پسندوں کی لاشیں پڑی تھیں۔
حفاظتی دستوں نے اُنہیں روکنے کے لیے اشک آور گیس چھوڑی جس کے ساتھ ہی طرفین کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
اسپتال ذرائع کے مطابق کئی افراد کے سر، سینے اور جسم کے دوسرے اُپری حصوں میں گولیاں لگی ہیں جس سے ڈاکٹروں کے مطابق یہ ظاہرہوتا ہے کہ اُنہیں ہلاک کرنے کی غرض سے ہدف بنایا گیا۔
بھارتی کشمیر کے پولیس سربراہ ایس پی وید نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت اُن کے خلاف حفاظتی دستوں کی طرف سے چلائی جا رہی "فعال مُہم" کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
انہوں نے جھڑپ میں فوجیوں اور شہری کی ہلاکت کو افسوسناک قرار دیدیا۔ پولیس عہدیداروں کے مطابق عسکریت پسند ایک نجی مکان کی نچلی چھت یا سیلنگ کے پیچھے چھپ گئے تھے اور جونہی حفاظتی دستوں نے اُنہیں ڈھونڈ نکالا عسکریت پسندوں نے اُن پر خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔
دو فوجی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے اور میجر سمیت اُن کے چار ساتھی زخمی ہو گئے۔ جوابی کارروائی اور مختصر جھڑپ میں، جیسا کہ عہدیداروں کا کہنا ہے، چاروں عسکریت پسند مارے گئے۔
پولیس سربراہ کے مطابق مالکِ مکان کا بیٹا عاشق ریشی بھی گولیوں کے تبادلے میں ہلاک ہو گیا۔ تاہم مقامی لوگوں نے شہریوں کی ہلاکتوں کو' ٹارگٹ کِلنگ' قرار دیدیا۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اُنہیں نجی مکان میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی مُصدِقہ اطلاع ملی تھی جس کی بُنیاد پر علاقے کو مقامی وقت کے مطابق صُبَح ساڑھے چار بجے گھیرے میں لے کر آپریشن شروع کیا گیا۔
مارے گئے فوجیوں کے نام لانس نائک رگھبیر سنگھ اور لانس نائک بندوریا گوپال سنگھ ہے اور ان کا تعلق بھارتی فوج کی شورش مخالف 1 راشٹریہ رائفلز سے تھا۔