بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پرتشدد مظاہروں اور کشیدگی میں کمی کے باعث اتوار کو حکام نے متنازع وادی کے اکثر حصوں میں کرفیوکی پابندی ختم کردی ہے۔
لیکن عینی شاہدوں کے مطابق دارالحکومت سری نگر کے بعض رہائشی علاقوں میں سکیورٹی فورسز سڑکو ں پر گشت اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کرتی رہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کرفیوکی پابندی کے خاتمے کے بعد وادی میں مجموعی طور پر صورت حال پُر امن رہی البتہ کہیں کہیں سکیورٹی فورسز پر مظاہرین کی طرف سے پتھراؤ کے واقعات پیش آئے۔
حالیہ ہفتوں میں بھارتی کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں اور مظاہرین پر پولیس کی مبینہ فائرنگ سے کم ازکم پندرہ افراد کی ہلاکت کے بعد صورت حال انتہائی کشیدہ ہو گئی ۔
ان مظاہروں کی حوصلہ شکنی کے لیے حکام نے گذشتہ منگل کو سری نگر سمیت وادی کے اکثر حصوں میں کرفیو لگا دیا تھا اور پچھلے بیس سالوں میں پہلی بار بھارتی کشمیر کے دارالحکومت میں امن وامان کو بحال کرنے کے لیے انتظامیہ نے فوج کو طلب کر لیا۔
بھارت میں حکام کا الزام ہے کہ کشمیر میں حالیہ پرتشدد مظاہروں میں پاکستانی انتہا پسند کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے۔
لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بے روزگاری ختم نہ کرنے، ترقیاتی منصوبوں کے فقدان، سرکاری محکموں میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خراب صورت حال نے حالات کو بگاڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ خود بھارتی کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹائمز آف انڈیا اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ تمام احتجاجی مظاہروں کے پیچھے لشکرِطبیہ کا ہاتھ نہیں تھا۔
پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے جب کہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ان پرتشدد واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ آئندہ ہفتے اسلام آباد میں ملاقات کر رہے ہیں جس کا مقصد تعطل کا شکار دو طرفہ جامع امن مذاکرات کے سلسلے کا بحال کرنا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وہ ملاقات میں بھارتی ہم منصب کے ساتھ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر بھی بات چیت کریں گے۔