پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع قصور میں ایک کم عمر بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعے کے خلاف شہر میں مسلسل دوسرے روز بھی حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور شہر کے کئی مقامات پر مشتعل افراد احتجاج کر رہے ہیں۔
مشتعل مظاہرین نے قصور سے منتخب حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکنِ صوبائی اسمبلی نعیم صفدر کے ڈیرے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی ہے اور وہاں موجود گاڑی اور فرنیچر کو آگ لگادی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈیرے پر حملہ کرنے والے مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
بچی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے سوگ میں شہر کے تمام بازار اور تعلیمی ادارے بند ہیں جب کہ مظاہرین نے کئی مقامات پر دھرنا دے رکھا ہے۔
سیکڑوں مشتعل مظاہرین نے قصور کے بڑے سرکاری اسپتال میں گھس کر بھی توڑ پھوڑ کی ہے جس کے باعث وہاں موجود عملہ اور مریض اسپتال سے چلے گئے ہیں۔
مشتعل مظاہرین نے شہر کے تمام داخلی راستوں پر بھی دھرنا دے رکھا ہے جس کے باعث شہر سے آنے اور جانے والا ٹریفک معطل ہے۔
گزشتہ روز پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے دو مظاہرین کی نمازِ جنازہ جمعرات کو قصور کے کالج گراؤنڈ میں ادا کردی گئی ہے جس میں شہر کے سیکڑوں افراد شریک ہوئے۔
نمازِ جنازہ کے بعد بھی مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات پر توڑ پھوڑ کی۔
اُدھر وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جمعرات کو علی الصباح قصور کا دورہ کیا جس کے دوران وہ متاثرہ بچی زینب کے گھر گئے اور بچی کے والد سے ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران شہباز شریف نے متاثرہ خاندان خاص طور پر زینب کے والد کو یقین دلایا کہ اس بہیمانہ قتل کے ذمہ دار کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
واضح رہے کہ زینب روڈ کوٹ کے علاقے میں گزشتہ اتوار کو ٹیوشن پڑھنے گئی تھی جس کے بعد وہ لاپتا ہو گئی۔ بعد ازاں منگل کو اس کی لاش ایک کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔
زینب کی لاش ملنے کے بعد بدھ کو شہر میں احتجاج کا سلسلہ چل نکلا تھا جو بعد میں پرتشدد مظاہروں میں بدل گیا تھا۔
مشتعل مظاہرین نے بدھ کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جس پر وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کردی تھی۔
بدھ کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد سرکاری تنصیبات کی حفاظت کے لیے رینجرز طلب کرلی گئی ہے۔
تاہم شہر میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور ان بیشتر مقامات سے پولیس غائب ہے جہاں احتجاج ہورہا ہے۔
پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ مظاہرین پر فائرنگ کے الزام میں چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اُن سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
زینب کی تدفین
زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں تھے اور اُن کی واپسی پر بدھ کی شب زینب کی تدفین کر دی گئی۔ اس سے قبل زینب کے والد نے وطن واپس پہنچنے کے بعد ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک مجرم کو پکڑا نہیں جاتا وہ زینب کی تدفین نہیں کریں گے۔
زینب کے قتل کے بعد پنجاب حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ابوبکر خدا بخش کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے جسے ابتدائی رپورٹ 24 گھنٹے میں جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔
جمعرات کو لاہور میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بھی قصور میں پیش آنے والے واقعات کا جائزہ لیا گیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کی ہے جب کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی فوجء حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ مجرموں تک پہنچنے میں سول انتظامیہ کی بھرپور مدد کریں۔
زینب کو جس طرح جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا اس پر ملک بھر میں مختلف حلقے خاص طور انسانی اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن سراپا احتجاج ہیں اور جمعرات کو پاکستان کے مختلف حصوں میں سول سوسائٹی کے طرف سے پرامن احتجاجی مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔