جوہری پاور پلانٹس میں کینیا کی دلچسپی

جوہری پاور پلانٹس میں کینیا کی دلچسپی

جہاں جرمنی جیسے ملک دنیا میں جوہری توانائی کے پلانٹس سے منسلک خطرات کے باعث جوہری پلانٹس کو بند کر رہے ہیں وہیں تیسری دنیا کے کچھ ممالک توانائی کی شدید قلت کے باعث جوہری توانائی کے پلانٹس لگانے کی تگ و دو میں ہیں۔ کینیا مشرقی افریقہ کا ایک ایسا ہی ملک ہے جہاں حکومت آنے والے وقت میں توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایٹمی پلانٹس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

کینیا میں تقریبا 86 فیصد لوگوں کے پاس بجلی کی سہولت نہیں ہے۔ لوگ مٹی کے تیل اور لکڑی کے کوئلے سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ تھوڑی بہت بجلی موجود ہے لیکن نہایت مہنگی ہے۔ کینیا تقریبا 1400 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے جس میں سے نصف سے زائد بجلی پانی کے بجلی گھروں سے پیدا کی جاتی ہے۔ لیکن جنگلوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی کے باعث بارشوں میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے دریاوں میں پانی کی سطح نہایت کم ہوگئی ہے۔ جس سے پانی سے بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ان حالات میں کینیا کے حکام اب جوہری توانائی سے بجلی کی پیداوار کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

ڈیوڈ اوٹواما کینیا کی وزارت توانائی کے جوہری شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بجلی کی قیمت کم کرنے سے زیادہ لوگوں تک بجلی کی فراہمی ممکن ہوگی۔ اگر مستقبل قریب میں جوہری توانائی سے بجلی پیدا کی جاتی ہے تو اس سے لوگوں کی مشکلات کم ہوں گی اور لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔

اوٹواما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کینیا کی کوشش ہے کہ وہ 2030ءتک معاشی طور پر ایک مستحکم ملک بن جائے۔ جس کے لیے ملک میں صنعتی ترقی کے لیے توانائی کی ضرورت پوری کرنا نہایت اہم ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ جوہری توانائی ناصرف کینیا بلکہ خطے کے دوسرے ملکوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ کینیا مشرقی افریقہ کے پاور پول نامی ان 9 مملک میں شامل ہے جو ماحول دوست اور سستی توانائی کے حصول کی کوشش میں ہیں۔

اوٹواماکہتے ہیں کہ ان ملکوں میں سے کسی میں بھی جوہری توانائی کے پلانٹس میں پیدا کی جانے والی بجلی دوسرے ملکوں کو بھی میسر ہوگی۔

اوٹواما کا کہنا ہےکہ وہ جوہری توانائی کے حصول کے لیے تین مراحل پر مبنی ایک پروگرام ترتیب دے رہے ہیں جس میں ماحولیاتی ، معاشی اور ٹیکنیکل مسائل پر تحقیق کی جائے گی۔ اور آنے والے 15 برسوں میں ایک ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کی جائے گا۔

یونیورسٹی آف نیروبی کے انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بھی اس حوالے سے کینیا کی حکومت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ کیچور گٹاری اس یونیورسٹی میں ایک سائنسدان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں مزید طالب علموں کی ضرورت ہے ۔ خاص طور سے نیوکلیئر انجنیئرنگ کے شعبے میں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں طلبہ کے لیے سہولیات بھی بہت کم ہیں۔

کیچور کا کہنا ہے کہ اس انسٹی ٹیوٹ میں آلات کے لیے فنڈز کی کمی ہے جس کے باعث پراجیکٹس تو شروع ہوتے ہیں لیکن طلبہ ان میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اور ڈونرز کی طرف سے بھی کچھ خاص مدد نہیں ملتی۔

کینیا کے کچھ حلقوں میں جوہری توانائی کی حفاظت سے متعلق بھی تحفظات پائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ حال ہی میں جاپان کے نیوکلیئر ری ایکٹر میں ہونے والا حادثہ اور چرنوبل کے حادثے کی یادیں ہیں۔

اس کے علاوہ خطے میں عدم استحکام کے خدشات بھی موجود ہیں، خاص طور پر صومالیہ میں شدت پسند گروپ الشباب کی کاروائیاں دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔

کینیا کے حکام کا کہنا ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود وہ جوہری توانائی کی پیداوار کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کر رہے ہیں جو اگلے 18 مہینوں میں تیار ہو جائے گی۔