کینیا کی ایک عدالت نے سوڈان کےعلاقے دارفور میں مبینہ طور پر پیش آنے والے جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات میں عالمی عدالت کو مطلوب سوڈان کے صدر عمر البشیر کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔
یاد رہے کہ صدر البشیر نے گزشتہ برس اگست میں کینیا کے نئے آئین کے اجرا کے حوالے سے دارالحکومت نیروبی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے دورے کے دوران سوڈانی صدر کو گرفتار کرنے کے بجائے انہیں سربراہ ِ مملکت کا پروٹوکول دینے پر کینیائی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
پیر کو کینیا کی عدالتِ عالیہ کے ایک جج نکولا اومبیجا نے اس حوالے سے دیے گئے اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ "اب اگر سوڈانی صدر کبھی بھی کینیا آئیں" تو حکومت پر لازم ہے کہ وہ انہیں حراست میں لے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ گرفتاری کے بعد صدر عمر البشیر کو دی ہیگ میں واقع عالمی عدالت (آئی سی سی) کے حوالے کردیا جائے جو دارفور میں ہونے والی مبینہ نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزام میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے۔
واضح رہے کہ سوڈان نے عالمی عدالت کے چارٹر پر دستخط نہیں کر رکھے ہیں اور صدر البشیر ماضی میں کئی بار وارنٹ گرفتاری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بیرونِ ملک جاچکے ہیں۔ تاہم وہ سفر کے دوران گرفتاری سے بچنے کے لیے زیادہ تر ان ممالک کو بطورِ راہداری استعمال کرتے ہیں جو 'آئی سی سی' کے رکن نہیں ہیں۔
عالمی عدالت کا موقف رہا ہے کہ ایک رکن ملک ہونے کے ناطے سوڈانی صدر کی اپنی حدود میں موجودگی کی صورت میں انہیں حراست میں لینا کینیا کی ذمہ داری ہے۔
عالمی عدالت کے حکام ماضی میں کینیا کی حکومت کو خبردار کرچکے ہیں کہ اگر وہ صدر البشیر کے وارنٹ گرفتاری کی پابندی کرنے میں ناکام رہی تو عدالت کینیا کی نافرمانی کا یہ معاملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کردے گی۔
واضح رہے کہ سوڈانی حکومت کی افواج 2003ء سے دارفور کےصحرائی خطے میں باغیوں سے برسرِ پیکار ہیں۔ عالمی عدالت کا موقف ہے کہ دورانِ لڑائی خطے کے عام باشندوں کے قتل، دست درازی، اور وہاں پیش آنے والے دیگر منظم جرائم کی مہم صدر البشیر کی ایما پر تیار کی گئی تھی۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ دارفور میں جاری لڑائی اور اس سے منسلک پرتشدد واقعات میں اب تک لگ بھگ تین لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ علاقے کے 27 لاکھ سے زائد باشندے بےگھر ہوگئے ہیں۔