اپنے گھر کے ایک کمرے میں موجود گیارہ سالہ عباس اپنی کتاب پڑھنے سے قاصر تھا۔ باہر دن بھی ہو تو اس کے گھر کی ٹین کی چھت اور بغیر کھڑکیوں والی اس چھوٹی سی قیام گاہ میں رات کا سا اندھیرا چھایا رہتا تھا۔
عباس کے گھر سے چند بلاک کے فاصلے پر 'کوچ ہوپ' نامی نوجوانوں کے ایک گروپ نے اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے میں مدد دی۔ انہوں نے دو لیٹر پانی سے بھری ایک بوتل میں تھوڑا سا بلیچ ملایا، پھر ایک 'کولکنگ ٹیوب' اور کچھ دیگر اوزار اٹھا کر عباس کے گھر کی راہ لی۔
وہاں پہنچ کر ان نوجوانوں نے پہلے گھر کی ٹین کی چھت کے درمیان میں ایک سوراخ کیا اور اس میں سے وہ بوتل گھر کی چھت میں لٹکادی۔ سوراخ کی خالی جگہ کو 'کولکنگ ٹیوب' کے ذریعے اچھی طرح بند کرنے اور بوتل سے پانی کے ممکنہ اخراج کو روکنے کے بعد ایک گھریلو ساختہ بلب تیار تھا اور عباس اور اس کے دیگر اہلِ خانہ اس کی روشنی میں لکھنے پڑھنے کے علاوہ اب وہ تمام کام بآسانی کرسکتے تھے جو وہ پہلے اندھیرے میں کیا کرتے تھے۔
عباس کی والدہ مدینہ محسن کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ان کی ہفتہ وار آمدنی کا نصف کیروسین کے خریداری پہ صرف ہوجاتا تھا جس سے وہ اپنے گھر کو روشن رکھتی تھیں۔ لیکن اب انہیں اس گھریلو ساختہ بلب سے 50 سے 60 وولٹ کے بلب کے برابر روشنی حاصل ہورہی ہے جو ان کے گھر کی تاریکی دور کرنے کے لیے کافی ہے۔
مدینہ محسن کا خان دان نیروبی کی 'کوروگوچی' نامی اس کچی آبادی میں اس 'واٹر بلب' سے استفادہ کرنے والا ایک اور گھر بن گیا ہے جس میں موجود پانی اور بلیچ گھر کی چھت پر چمکتے سورج کی روشنی کا گھر کے اندر انعکاس کرکے اسے روشن کرتا ہے۔ یہ بلب چودہویں کے چاند میں بھی یکساں کارآمد ہے۔
'کوروگوچو' اور نیروبی کے دیگر کچی آبادیوں کے بیشتر مکینوں کی روزانہ آمدنی ایک سے دو ڈالر کے درمیان ہے اور اس غریب طبقے کو بجلی کی سہولت دستیاب نہیں ۔
انہیں میں سے ایک سماجی رضاکار متایو مگالاشیا ہیں جو 'کوروگوچو' ہی کے ایک تنگ و تاریک گھر میں پروان چڑھے ہیں۔ ان کا خان دان اتنا غریب تھا کہ وہ اپنے گھر کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے کیروسین خریدنے کی سکت بھی نہیں رکھتے تھے۔
نوجوان مگالاشیا نے ویڈیو شیئرنگ کی معرف ویب سائٹ 'یو ٹیوب' پر برازیل میں دریافت کیے گئے اس سستے اور گھریلو ساختہ بلب کی ایک ویڈیو دیکھی اور انہوں نے خود اس کا تجربہ کرنے کی ٹھان لی۔
اس ایجاد میں استعمال ہونے والی تمام چیزیں ان کی دسترس میں تھیں۔
لہذا نہ صرف انہوں نے اس بلب سے خود استفادہ کیا بلکہ اپنے علاقے کی نوجوانوں کی تنظیم 'کوچ ہوپ' تک جاپہنچے اور انہیں قائل کیا کہ اس آسان اور سستے طریقے سے علاقے کے دیگر گھروں کو بھی روشن کیا جائے۔
ان نوجوانوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور 2011ء کے دوران 'کوروگوچو' کے 100 گھروں میں یہ بلب نصب کردیے۔
ایسا ہی ایک گھر ویرونیکا ونجیرو کا ہے جہاں وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ ویرونیکا کا کہنا ہے کہ ان کے بڑے بیٹے کو اپنے اسکول میں ایک کلاس دوبارہ پڑھنی پڑھی تھی کیوں کہ وہ تاریکی کی وجہ سے ہوم ورک نہیں کرپاتا تھا اور نتیجتاً امتحان میں ناکام ہوگیا تھا۔
انہیں اس بلب کا سب سے بڑا فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ اب ان کے بچے گھر میں موجود رہتے ہوئے بآسانی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔
'کوچ ہوپ' اب اپنے اس منصوبے کو دوسری کچی آبادیوں تک لے جانا چاہتی ہے لیکن انہیں اس کام کے لیے معاونین درکار ہیں کیوں کہ ان کے بقول چھت میں کیے گئے سوراخ کو پر کرنے کے لیےجس 'کولکنگ ٹیوب' کا استعمال کیا جاتا ہے وہ دیگر اشیا کے مقابلے میں نسبتاً مہنگی ہے۔