اس سے قبل بھی امریکی وزیر ِ خارجہ دو مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں مگر اس حیثیت میں یہ ان کی شاہ عبداللہ سے پہلی ملاقات ہو گی۔
واشنگٹن —
امریکی وزیر ِ خارجہ جان کیری سعودی عرب پہنچ گئے ہیں جہاں وہ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ سے شام میں جاری خانہ جنگی اور ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تبادلہ ِ خیال کریں گے، یہ وہ معاملات ہیں جن پر امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں بظاہر سرد مہری پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
جان کیری پُر امید دکھائی دیتے ہیں کہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی تجدید ہو جائے اور وہ اسی مقام پر پہنچ جائیں جس پر شام اور ایران کے معاملے پر تناؤ سے قبل تھے۔
سعودی عرب نے گذشتہ ماہ اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست یہ کہتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اقوام ِ متحدہ نے شام کے معاملے پر ’دوہرا معیار‘ اپنایا ہوا ہے اور وہ شام میں خانہ جنگی کا حل نکالنے میں ناکام رہا جہاں بقول سعودی عرب، شام کے صدر بشار الاسد کو ایرانی حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
سعودی عرب، شام میں باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔ سعودی عرب کو امریکہ کے اس فیصلے پر مایوسی ہوئی تھی جب امریکہ نے شام میں کیمیائی حملے کے جواب میں فضائی کارروائی کا عندیہ دے کر، امریکہ اور روس کے درمیان اس حوالے سے ایک معاہدہ طے پا جانے کے بعد اسے ملتوی کر دیا تھا۔
ریاض روانگی سے قبل اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے جان کیری کا کہنا تھا کہ شام میں امریکہ اور سعودی عرب کے ایک طرح کے مقاصد وابستہ ہیں۔
جان کیری کے الفاظ، ’خطے میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جو شام کے حوالے سے امریکہ کا کچھ اور کردار دیکھنا چاہتے تھے، مگر ہم نے کچھ اور کیا۔ مگر یہ اختلافات بنیادی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوں گے‘۔
امریکی وزیر ِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ اور سعودی عرب دونوں ہی شام میں ایک ایسی عبوری حکومت دیکھنا چاہتے ہیں جس میں صدر بشار الاسد کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس سے قبل بھی امریکی وزیر ِ خارجہ دو مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں مگر اس حیثیت میں یہ ان کی شاہ عبداللہ سے پہلی ملاقات ہوگی۔
جان کیری پُر امید دکھائی دیتے ہیں کہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی تجدید ہو جائے اور وہ اسی مقام پر پہنچ جائیں جس پر شام اور ایران کے معاملے پر تناؤ سے قبل تھے۔
سعودی عرب نے گذشتہ ماہ اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست یہ کہتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اقوام ِ متحدہ نے شام کے معاملے پر ’دوہرا معیار‘ اپنایا ہوا ہے اور وہ شام میں خانہ جنگی کا حل نکالنے میں ناکام رہا جہاں بقول سعودی عرب، شام کے صدر بشار الاسد کو ایرانی حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
سعودی عرب، شام میں باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔ سعودی عرب کو امریکہ کے اس فیصلے پر مایوسی ہوئی تھی جب امریکہ نے شام میں کیمیائی حملے کے جواب میں فضائی کارروائی کا عندیہ دے کر، امریکہ اور روس کے درمیان اس حوالے سے ایک معاہدہ طے پا جانے کے بعد اسے ملتوی کر دیا تھا۔
ریاض روانگی سے قبل اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے جان کیری کا کہنا تھا کہ شام میں امریکہ اور سعودی عرب کے ایک طرح کے مقاصد وابستہ ہیں۔
جان کیری کے الفاظ، ’خطے میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جو شام کے حوالے سے امریکہ کا کچھ اور کردار دیکھنا چاہتے تھے، مگر ہم نے کچھ اور کیا۔ مگر یہ اختلافات بنیادی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوں گے‘۔
امریکی وزیر ِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ اور سعودی عرب دونوں ہی شام میں ایک ایسی عبوری حکومت دیکھنا چاہتے ہیں جس میں صدر بشار الاسد کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس سے قبل بھی امریکی وزیر ِ خارجہ دو مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں مگر اس حیثیت میں یہ ان کی شاہ عبداللہ سے پہلی ملاقات ہوگی۔