امریکہ کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ حکومت کا جزوی شٹ ڈاؤن اگر ’’طول پکڑتا ہے یا اس کا دوبارہ سامنا ہوتا ہے‘‘ تو لوگ امریکہ کی ’’(درست) راہ پر گامزن‘‘ رہنے کی صلاحیت کے بارے میں سوالات کرنا شروع کر دیں گے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے متنبہ کیا ہے کہ واشنگٹن میں سیاسی تنازع کی طوالت ملک کو عالمی سطح پر کمزور کر سکتی ہے۔
البتہ وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں ایسا نہیں ہو گا۔
کیری نے کہا کہ اگر شٹ ڈاؤن ’’طول پکڑتا ہے یا اس کا دوبارہ سامنا ہوتا ہے‘‘ تو لوگ امریکہ کی ’’(درست) راہ پر گامزن‘‘ رہنے کی صلاحیت کے بارے میں سوالات کرنا شروع کر دیں گے۔
انڈونیشیا کے جزیرہ بالی کے علاقے نوسہ دعا میں ایشیا پیسیفک تعاون تنظیم کے اجلاس میں کیری نے کہا کہ امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن ایک ’’وقتی سلسلہ‘‘ ہے۔
ادھر امریکہ میں اس جزوی شٹ ڈاؤن پر برقرار سیاسی جمود ہفتہ کو اپنے پانچویں روز میں داخل ہو گیا۔
صدر براک اوباما اور کانگریس میں اُن کے ریپبلیکن مخالفین شٹ ڈاؤن کے معاملے پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں کر سکیں ہیں۔
اس شٹ ڈاؤن کی وجہ سے آٹھ لاکھ سے زائد وفاقی ملازمین کو مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے اور حکومت کی متعدد سروسز بھی بند ہو گئی ہیں۔ چھٹی پر بھیجے گئے افراد وفاقی ملازمین کی مجموعی تعداد کا تقریباً ایک تہائی حصہ بنتے ہیں۔
متاثرہ ملازمین کی مشکلات کو واضح کرنے کے لیے مسٹر اوباما جمعہ کو ایک مقامی سینڈوچ شاپ گئے جہاں سرکاری ملازمین کو رعایت دی جا رہی ہے۔
نائب صدر جو بائیڈن اور اپنے لیے آرڈر دینے سے قبل مسٹر اوباما نے ریپبلیکنز کی اکثریت والے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر جان بینر پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے غیر مشروط بل پر رائے شماری کی اجازت دیں۔
مزید برآں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ جزوی شٹ ڈاؤن کے باعث ایشیا سے متعلق واشنگٹن کی ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔
جزیرہ بالی میں ہفتہ کو صحافیوں سے گفتگو میں کیری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جزوی شٹ ڈاؤن کے باوجود امریکہ اپنی ذمہ داریاں بنھائے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ بحر الکاہل سے جڑے 21 ممالک کے رہنماؤں کے آئندہ ہفتے ہونے والے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے بالی میں ہیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے اس اجلاس میں شرکت کرنا تھی، مگر شٹ ڈاؤن کے تناظر میں اُنھوں نے اپنا دورہ منسوخ کرکے واشنگٹن میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
البتہ وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں ایسا نہیں ہو گا۔
کیری نے کہا کہ اگر شٹ ڈاؤن ’’طول پکڑتا ہے یا اس کا دوبارہ سامنا ہوتا ہے‘‘ تو لوگ امریکہ کی ’’(درست) راہ پر گامزن‘‘ رہنے کی صلاحیت کے بارے میں سوالات کرنا شروع کر دیں گے۔
انڈونیشیا کے جزیرہ بالی کے علاقے نوسہ دعا میں ایشیا پیسیفک تعاون تنظیم کے اجلاس میں کیری نے کہا کہ امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن ایک ’’وقتی سلسلہ‘‘ ہے۔
ادھر امریکہ میں اس جزوی شٹ ڈاؤن پر برقرار سیاسی جمود ہفتہ کو اپنے پانچویں روز میں داخل ہو گیا۔
صدر براک اوباما اور کانگریس میں اُن کے ریپبلیکن مخالفین شٹ ڈاؤن کے معاملے پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں کر سکیں ہیں۔
اس شٹ ڈاؤن کی وجہ سے آٹھ لاکھ سے زائد وفاقی ملازمین کو مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے اور حکومت کی متعدد سروسز بھی بند ہو گئی ہیں۔ چھٹی پر بھیجے گئے افراد وفاقی ملازمین کی مجموعی تعداد کا تقریباً ایک تہائی حصہ بنتے ہیں۔
متاثرہ ملازمین کی مشکلات کو واضح کرنے کے لیے مسٹر اوباما جمعہ کو ایک مقامی سینڈوچ شاپ گئے جہاں سرکاری ملازمین کو رعایت دی جا رہی ہے۔
نائب صدر جو بائیڈن اور اپنے لیے آرڈر دینے سے قبل مسٹر اوباما نے ریپبلیکنز کی اکثریت والے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر جان بینر پر زور دیا کہ وہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے غیر مشروط بل پر رائے شماری کی اجازت دیں۔
مزید برآں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ جزوی شٹ ڈاؤن کے باعث ایشیا سے متعلق واشنگٹن کی ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔
جزیرہ بالی میں ہفتہ کو صحافیوں سے گفتگو میں کیری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جزوی شٹ ڈاؤن کے باوجود امریکہ اپنی ذمہ داریاں بنھائے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ بحر الکاہل سے جڑے 21 ممالک کے رہنماؤں کے آئندہ ہفتے ہونے والے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے بالی میں ہیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے اس اجلاس میں شرکت کرنا تھی، مگر شٹ ڈاؤن کے تناظر میں اُنھوں نے اپنا دورہ منسوخ کرکے واشنگٹن میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔