امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ خانہ جنگی کا شکار شام آئندہ چند ہفتوں کے دوران "بڑی تبدیلی" سے گزر سکتا ہے۔
جان کیری نے یہ پیش گوئی گزشتہ ہفتے ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں کی ہے جس میں بین الاقوامی طاقتوں نے شام میں انتقالِ اقتدار کے عبوری منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔
منگل کو پیرس میں فرانس کے صدر فرانسس اولاں کے ساتھ ملاقات کےبعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے ایران اور روس پر زور دیا کہ وہ شام میں جنگ بندی کے لیے جاری عالمی کوششوں میں تعاون کرکے مجوزہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں مدد دیں۔
ایران اور روس شام کے صدر بشار الاسد کے اتحادی ہیں جو گزشتہ ساڑھے چار سال سے جاری خانہ جنگی میں شامی حکومت کی مدد میں پیش پیش رہے ہیں۔
اس کے برعکس امریکہ، اس کے یورپی اتحادی اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک شامی حزبِ اختلاف کے اس موقف کے حامی ہیں کہ شام میں مستقبل میں ہونے والے کسی بھی سیاسی انتظام میں بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
شام کے بحران سے متعلق ہفتے کو ویانا میں ہونے والے اجلاس میں 20 ملکوں کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے تھے جس میں انہوں نے اقوامِ متحدہ کی ثالثی میں شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں کے درمیان یکم جنوری تک مذاکرات شروع کرانے پر اتفاق کیا تھا۔
اجلاس کے شرکا نے چھ ماہ کے اندر اندر شام میں ایک ایسی حکومت کے قیام پر بھی اتفاق کیا تھا جو تمام فریقوں کی نمائندہ ہو اور 18 ماہ کی مدت میں آزادانہ اور جانبدارانہ انتخابات کراکے اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کردے۔
منگل کو پیرس میں امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے جان کیری نے کہا کہ اس وقت شام کے محاذ پر امریکہ اور روس کی پہلی ترجیح اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ وہاں درست اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایک دوسرے کے مدِ مقابل نہیں آرہے۔
انہوں نے عندیہ دیا کہ اگر شام میں سیاسی مفاہمت کا عمل تیزی سے آگے بڑھا تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان معلومات کے تبادلے اور دیگر طرح کے تعاون میں اضافہ ہوجائے۔
جان کیری نے بتایا کہ وہ اگلے چند ہفتوں کےد وران شام کے معاملے پر ایک اور اجلاس بلائیں گے جس میں اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ مجوزہ امن عمل میں حزبِ اختلاف کے کون کون سے گروپ شریک ہوں گے۔