جان کیری کا کہنا تھا کہ عالمی سفارتی کوششوں کا واضح مطلب یہ ہے کہ شامی صدر عبوری حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے۔
واشنگٹن —
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ شام کے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں کا مقصد ایک ایسی عبوری حکومت کا قیام ہے جس میں صدر بشار الاسد شامل نہیں ہوں گے۔
جمعرات کو اٹلی کے دارالحکومت روم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ شامی بحران کے حل کے لیے جاری بین الاقوامی سفارتی کوششوں کا مقصد شامی حکومت اور صدر اسد کے مخالفین کو ملک میں ایک متفقہ عبوری حکومت کے قیام پر راضی کرنا ہے۔
اردن کے وزیرِ خارجہ ناصر جودے کے ساتھ ملاقات کے بعد جان کیری کا کہنا تھا کہ ان کوششوں کا واضح مطلب یہ ہے کہ شامی صدر عبوری حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے۔
شام میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مرکزی اتحاد کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ملک میں قیامِ امن کے کسی بھی معاہدے پر اتفاق اسی صورت میں ممکن ہے کہ صدر اسد اور ان کے اعلیٰ ترین فوجی مشیران اپنے عہدے چھوڑ دیں۔
رواں ہفتے امریکی وزیرِ خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب سرجئی لاوروف نے شام میں امن مذاکرات کے آغاز کے لیے ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔
دونوں ممالک کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ شامی تنازع کے فریقین کو ایک ایسے منصوبے کے تحت مذاکرات کے آغاز پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جو عام انتخابات کا انعقاد کرائے۔
بین الاقوامی طاقتوں نے گزشتہ سال جون میں اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ آیا اس منصوبے کے تحت صدر اسد مستقبل میں بھی شام کی قیادت پر فائز رہنے کے اہل ہوں گے یا نہیں۔
امریکہ کئی بار شامی صدر سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کرچکا ہے لیکن اسد حکومت کا دیرینہ اتحادی روس اس مطالبے کو مسترد کرتا آیا ہے۔
لیکن صدر اسد کے سیاسی مستقبل کے بارے میں روسی حکام نے بھی خاموشی اختیار کیے رکھی ہے اور ان کے اقتدار پر فائز رہنے کے متعلق دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہے۔
جمعرات کو اٹلی کے دارالحکومت روم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ شامی بحران کے حل کے لیے جاری بین الاقوامی سفارتی کوششوں کا مقصد شامی حکومت اور صدر اسد کے مخالفین کو ملک میں ایک متفقہ عبوری حکومت کے قیام پر راضی کرنا ہے۔
اردن کے وزیرِ خارجہ ناصر جودے کے ساتھ ملاقات کے بعد جان کیری کا کہنا تھا کہ ان کوششوں کا واضح مطلب یہ ہے کہ شامی صدر عبوری حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے۔
شام میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مرکزی اتحاد کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ملک میں قیامِ امن کے کسی بھی معاہدے پر اتفاق اسی صورت میں ممکن ہے کہ صدر اسد اور ان کے اعلیٰ ترین فوجی مشیران اپنے عہدے چھوڑ دیں۔
رواں ہفتے امریکی وزیرِ خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب سرجئی لاوروف نے شام میں امن مذاکرات کے آغاز کے لیے ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔
دونوں ممالک کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ شامی تنازع کے فریقین کو ایک ایسے منصوبے کے تحت مذاکرات کے آغاز پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جو عام انتخابات کا انعقاد کرائے۔
بین الاقوامی طاقتوں نے گزشتہ سال جون میں اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ آیا اس منصوبے کے تحت صدر اسد مستقبل میں بھی شام کی قیادت پر فائز رہنے کے اہل ہوں گے یا نہیں۔
امریکہ کئی بار شامی صدر سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کرچکا ہے لیکن اسد حکومت کا دیرینہ اتحادی روس اس مطالبے کو مسترد کرتا آیا ہے۔
لیکن صدر اسد کے سیاسی مستقبل کے بارے میں روسی حکام نے بھی خاموشی اختیار کیے رکھی ہے اور ان کے اقتدار پر فائز رہنے کے متعلق دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہے۔