امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے صدر براک اوباما کی جانب سے عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم 'دولتِ اسلامیہ' سے مقابلے کی حکمتِ عملی پر روس کی تنقید پہ مایوسی ظاہر کی ہے۔
جمعرات کی شب سعودی عرب کے شہر جدہ میں 'وائس آف امریکہ' کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے امید ظاہر کی کہ روس جلد اس حقیقت کا ادراک کرلے گا کہ 'دولتِ اسلامیہ' اس کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔
جان کیری نے روس اور چیچنیا کے تنازع کے مثال دیتے ہوئے کہا کہ روس کے آس پاس کے ممالک اور خود روس کے کئی حصوں میں مسائل اور تنازعات جاری ہیں جہاں سرگرم دہشت گرد 'دولتِ اسلامیہ' اور عراق اور شام میں اس کی کارروائیوں کو اپنے لیے ایک مثال بنا سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ شامی حکومت اور اس کے سب سے بڑے عالمی اتحادی روس، دونوں نے ہی صدر براک اوباما کے اس اعلان پر برہمی ظاہر کی ہے جس میں انہوں نے دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں کو "شام سمیت " ہر جگہ نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔
صدر اوباما نے یہ اعلان دولتِ اسلامیہ سے مقابلے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حکمتِ عملی سے متعلق بدھ کو 'وہائٹ ہاؤس' میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کیا تھا۔
صدر اوباما کے اس اعلان پر اپنے ابتدائی ردِ عمل میں روس کی وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ شامی حکومت یا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر شام کی حدود میں امریکی حملے "بیرونی جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی" ہوں گے۔
'وی او اے' کے ساتھ اپنے انٹرویو میں سیکریٹری کیری کا کہنا تھا کہ روس کو دولتِ اسلامیہ کےخلاف بننے والے عالمی اتحاد کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے اس کا حصہ بننا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ صدر براک اوباما کو امید ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن دولتِ اسلامیہ سے مقابلے اور شام میں خانہ جنگی کےخاتمے کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں میں اعانت کریں گے۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی یہ سوچتے ہیں کہ روس کو بھی کبھی نہ کبھی اس بات کا خیال ضرور آئے گا کہ اسے صدر بشار الاسد جیسے شخص کی حمایت ترک کردینی چاہیے جو اپنے ہی لوگوں کے قتل میں ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماسکو حکومت کو شام کے تنازع کا سیاسی حل نکالنے کی کوششوں میں عالمی برادری کی مدد کرنے چاہیے اور امریکہ اس ضمن میں روسی تعاون کا منتظر ہے۔