سینیٹر کیری کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ دنیا کی قیادت پر فائز رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنی داخلی معاشی معاملات ٹھیک کرنا ہوں گے۔
واشنگٹن —
سینیٹر جان کیری امریکہ کےنئے وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے اپنی نامزدگی کی توثیق کے لیے جمعرات کو سینیٹ کی اس امورِ خارجہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے جس کے وہ خود سربراہ بھی ہیں۔
کمیٹی کے ارکان کے روبرو بیانِ حلفی دیتے ہوئے میساچوسٹس سے منتخب سینیٹر کیری کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ دنیا کی قیادت پر فائز رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنی داخلی معاشی معاملات ٹھیک کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اب ماضی سے کہیں زیادہ اس کی معاشی پالیسی پر انحصار کرتی ہے۔ کیری کے بقول ایک ایسے وقت میں جب دنیا وسائل اور عالمی منڈیوں پر تصرف کی جدوجہد کر رہی ہے، اگر امریکہ اس ضمن میں قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہا تو وہ بتدریج کمزور ہوجائے گا۔
جان کیری گزشتہ 28 برسوں سے امریکی سینیٹ اور سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کے رکن ہیں جب کہ گزشتہ چار برسوں سے وہ اس کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔
جمعرات کو ہونے والی سماعت کےآغاز پر وزیرِ خارجہ کے منصب سے سبکدوش ہونے والی ہیلری کلنٹن نے اراکینِ کمیٹی کے سامنے سینیٹر جان کیری کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا انہیں ایک ایسی شخصیت قرار دیا جو ان کے بقول قائدانہ صلاحیتوں اور خدمات کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔
گزشتہ ماہ امریکہ کے نئے وزیرِ خارجہ کے طور پر سینیٹر کیری کی نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا تھا کہ محکمہ خارجہ کے ایک سابق افسر کے صاحبزادے ہونے کی حیثیت سے کیری محکمے سے منسلک افراد کا انتہائی احترام کرتے ہیں۔
کمیٹی کے سامنے اپنی ترجیحات بیان کرتے ہوئے سینیٹر کیری نے کہا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر جاری تنازع کے سفارتی حل کی اوباما انتظامیہ کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے۔
ان کے الفاظ میں، "میں اس معاملے میں سفارت کاری کی کامیابی کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ لیکن ہمارے اس عزم سے کسی کو یہ غلط فہمی لاحق نہیں ہونی چاہیے کہ ہم جوہری ہتھیاروں کے خطرے کو اہمیت نہیں دے رہے"۔
افغانستان کے معاملے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے نامزد وزیرِ خارجہ نے کہا کہ وہ افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ جاری مفاہمیع کوششوں کی حمایت کریں گےاور اگر یہ کوششیں ناکام رہیں تو پھر ان کی تمام توجہ افغان حکومت کو مستحکم بنانے پر مرکوز ہوگی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ کولمبیا کی طرح لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک، بشمول وینزویلا، بولیویا اور ایکواڈور کے ساتھ بھی بہتر تعلقات قائم کرسکتا ہے۔
سینیٹر کیری 2004ء کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار بھی تھے لیکن وہ یہ انتخاب اپنے ری پبلکن حریف جارج ڈبلیو بش سے ہار گئے تھے۔
کیری کا شمار امریکہ کے امیر ترین سینیٹرز میں ہوتا ہے اور ان کے اثاثوں کا تخمینہ 184 ملین ڈالرز لگایا جاتا ہے۔
وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وزیرِ خارجہ بننے کے بعد وہ ان کمپنیوں میں اپنی شراکت داری سے علیحدہ ہو جائیں گے جن کے ساتھ ان کی بطور وزیر خارجہ ذمہ داریوں اور کاروباری مفاد میں تصادم کا اندیشہ ہو۔
صدر براک اوباما کی پہلی مدت صدارت میں بھی سینیٹر کیری وزیرخارجہ کے طور پر ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا لیکن اُس وقت ہلری کلنٹن کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی جو کہ صدر اوباما کی دوسری مدت صدارت میں اس منصب پر فائز رہنے سے معذرت کرچکی ہیں۔
کمیٹی کے ارکان کے روبرو بیانِ حلفی دیتے ہوئے میساچوسٹس سے منتخب سینیٹر کیری کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ دنیا کی قیادت پر فائز رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنی داخلی معاشی معاملات ٹھیک کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اب ماضی سے کہیں زیادہ اس کی معاشی پالیسی پر انحصار کرتی ہے۔ کیری کے بقول ایک ایسے وقت میں جب دنیا وسائل اور عالمی منڈیوں پر تصرف کی جدوجہد کر رہی ہے، اگر امریکہ اس ضمن میں قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہا تو وہ بتدریج کمزور ہوجائے گا۔
جان کیری گزشتہ 28 برسوں سے امریکی سینیٹ اور سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کے رکن ہیں جب کہ گزشتہ چار برسوں سے وہ اس کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔
جمعرات کو ہونے والی سماعت کےآغاز پر وزیرِ خارجہ کے منصب سے سبکدوش ہونے والی ہیلری کلنٹن نے اراکینِ کمیٹی کے سامنے سینیٹر جان کیری کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا انہیں ایک ایسی شخصیت قرار دیا جو ان کے بقول قائدانہ صلاحیتوں اور خدمات کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔
گزشتہ ماہ امریکہ کے نئے وزیرِ خارجہ کے طور پر سینیٹر کیری کی نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا تھا کہ محکمہ خارجہ کے ایک سابق افسر کے صاحبزادے ہونے کی حیثیت سے کیری محکمے سے منسلک افراد کا انتہائی احترام کرتے ہیں۔
کمیٹی کے سامنے اپنی ترجیحات بیان کرتے ہوئے سینیٹر کیری نے کہا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر جاری تنازع کے سفارتی حل کی اوباما انتظامیہ کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے۔
ان کے الفاظ میں، "میں اس معاملے میں سفارت کاری کی کامیابی کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ لیکن ہمارے اس عزم سے کسی کو یہ غلط فہمی لاحق نہیں ہونی چاہیے کہ ہم جوہری ہتھیاروں کے خطرے کو اہمیت نہیں دے رہے"۔
افغانستان کے معاملے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے نامزد وزیرِ خارجہ نے کہا کہ وہ افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ جاری مفاہمیع کوششوں کی حمایت کریں گےاور اگر یہ کوششیں ناکام رہیں تو پھر ان کی تمام توجہ افغان حکومت کو مستحکم بنانے پر مرکوز ہوگی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ کولمبیا کی طرح لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک، بشمول وینزویلا، بولیویا اور ایکواڈور کے ساتھ بھی بہتر تعلقات قائم کرسکتا ہے۔
سینیٹر کیری 2004ء کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار بھی تھے لیکن وہ یہ انتخاب اپنے ری پبلکن حریف جارج ڈبلیو بش سے ہار گئے تھے۔
کیری کا شمار امریکہ کے امیر ترین سینیٹرز میں ہوتا ہے اور ان کے اثاثوں کا تخمینہ 184 ملین ڈالرز لگایا جاتا ہے۔
وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وزیرِ خارجہ بننے کے بعد وہ ان کمپنیوں میں اپنی شراکت داری سے علیحدہ ہو جائیں گے جن کے ساتھ ان کی بطور وزیر خارجہ ذمہ داریوں اور کاروباری مفاد میں تصادم کا اندیشہ ہو۔
صدر براک اوباما کی پہلی مدت صدارت میں بھی سینیٹر کیری وزیرخارجہ کے طور پر ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا لیکن اُس وقت ہلری کلنٹن کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی جو کہ صدر اوباما کی دوسری مدت صدارت میں اس منصب پر فائز رہنے سے معذرت کرچکی ہیں۔