امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس عمل میں معصوم لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ نگرانی کے عمل کے دوران بعض اوقات انٹیلی جنس اداروں نے ’حد سے تجاوز‘ کیا۔ لیکن اُن کا کہنا تھا کہ دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔
جان کیری نے یہ بات واشنگٹن سے ویڈیو لنک کے ذریعے لندن میں ایک کانفرنس سے خطاب میں کہی۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس عمل میں معصوم لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔
اُنھوں نے نگرانی کے امریکی پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے دہشت گردی کی کئی کوششوں کو ناکام بنایا گیا۔
حال میں میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی طرف سے جرمن چانسلر آنگیلا مرخیل سمیت کئی اتحادی ممالک کے رہنماؤں کے ٹیلی فون پر ہونے والے رابطوں کی جاسوسی کی جاتی رہی۔
یہ خبریں ’این ایس اے‘ کے سابق کنٹریکٹ ملازم ایڈورڈ اسنوڈن کی طرف سے افشا کی جانے والی دستاویزات کی بنیاد پر شائع کی گئیں۔
جاسوسی کے معاملے پر تنازع کا دائرہ اب ایشیا تک بھی پھیل گیا ہے۔ جمعرات کو انڈونیشیا نے جکارتہ میں تعینات آسٹریلیا کے سفیر کو طلب کر کے اُن خبروں سے متعلق وضاحت مانگی جن میں کہا گیا تھا کہ آسٹریلیا نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ویتنام، چین اور مشرقی تیمور میں اپنے سفارتوں خانوں میں امریکہ کو خفیہ نگرانی کا پروگرام چلانے کی اجازت دی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق جکارتہ میں امریکی سفارت خانہ انڈونیشیا کے صدر سوسیلو بامبانگ یودھویونو اور ملک کے دیگر رہنماؤں کی نگرانی کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے جکارتہ میں امریکی سفیر کو بھی طلب کر کے ان اطلاعات پر وضاحت طلب کی۔
جان کیری نے یہ بات واشنگٹن سے ویڈیو لنک کے ذریعے لندن میں ایک کانفرنس سے خطاب میں کہی۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس عمل میں معصوم لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔
اُنھوں نے نگرانی کے امریکی پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے دہشت گردی کی کئی کوششوں کو ناکام بنایا گیا۔
حال میں میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی طرف سے جرمن چانسلر آنگیلا مرخیل سمیت کئی اتحادی ممالک کے رہنماؤں کے ٹیلی فون پر ہونے والے رابطوں کی جاسوسی کی جاتی رہی۔
یہ خبریں ’این ایس اے‘ کے سابق کنٹریکٹ ملازم ایڈورڈ اسنوڈن کی طرف سے افشا کی جانے والی دستاویزات کی بنیاد پر شائع کی گئیں۔
جاسوسی کے معاملے پر تنازع کا دائرہ اب ایشیا تک بھی پھیل گیا ہے۔ جمعرات کو انڈونیشیا نے جکارتہ میں تعینات آسٹریلیا کے سفیر کو طلب کر کے اُن خبروں سے متعلق وضاحت مانگی جن میں کہا گیا تھا کہ آسٹریلیا نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ویتنام، چین اور مشرقی تیمور میں اپنے سفارتوں خانوں میں امریکہ کو خفیہ نگرانی کا پروگرام چلانے کی اجازت دی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق جکارتہ میں امریکی سفارت خانہ انڈونیشیا کے صدر سوسیلو بامبانگ یودھویونو اور ملک کے دیگر رہنماؤں کی نگرانی کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے جکارتہ میں امریکی سفیر کو بھی طلب کر کے ان اطلاعات پر وضاحت طلب کی۔