دوستم کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کی مخالفت

فائل

جس دن افغان صدر نے طالبان سے مذاکرات کی میز پر آنے کی اپیل کی، ٹھیک اسی دن ان کے نائب صدر اول اور سابق جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم نے طالبان سے جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

ایک سال سے زائد عرصے سے جاری سیاسی جوڑ توڑ کے بعد بالآخر افغان صدر اشرف غنی نے رواں ہفتے اعلیٰ امن کونسل کے سات ارکان کا تقرر کردیا ہے جو افغان طالبان سے مذاکرات کے مجاز ہوں گے۔

اس اعلان کے ساتھ ہی صدر غنی نے ایک بار پھر طالبان اور دیگر جنگجو گروہوں سے اپیل کی کہ وہ لڑائی بند کرکے مذکرات کا راستہ اختیار کریں۔

لیکن ایک جانب جہاں صدر غنی اور ان کی حامی غیر ملکی حکومتوں کے سفارت کار طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، وہیں اندرونِ ملک صدر غنی کے بعض اتحادی ہی ان کی اس مصالحانہ روش سے متفق نہیں۔

جس دن افغان صدر نے طالبان سے مذاکرات کی میز پر آنے کی اپیل کی، ٹھیک اسی دن ان کے نائب صدر اول اور سابق جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم نے طالبان سے جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

منگل کو افغان ٹی وی چینلوں پر نشر کی جانے والی ایک تقریر میں رشید دوستم نے کہا کہ وہ طالبان سے انتقام لینا جاری رکھیں گے اور انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا کر دم لیں گے۔

جنرل دوستم کے نام سے مشہور نائب صدر کا تعلق افغانستان کے صوبہ جوزجان سے ہے اور وہ افغانستان میں آباد تاجک نسلی اقلیت کے گزشتہ کئی دہائیوں سے بلا شرکتِ غیرے سربراہ اور نمائندہ ہیں۔

افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف جہدوجہد سے معروف ہونے والے رشید دوستم کے پاس اب بھی 10 ہزار سے زائد ازبک جنگجووں کا لشکر موجود ہے جس نے افغانستان کی سیاست اور معاشرے میں ان کا اثر برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

جنرل دوستم طالبان کے اس وقت سے سخت مخالف اور جانی دشمن ہیں جب ان کی تحریک گزشتہ صدی کے آخری چند برسوں میں منظم ہونا شروع ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے کابل پر قابض ہوگئی تھی۔

وہ افغانستان کے دیگر جنگجو سرداروں اور ماضی کے گوریلا کمانڈروں کے اس اتحاد میں شامل تھے جس نے طالبان کے خلاف کئی برسوں تک لڑائی جاری رکھی اور بالآخر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے میں معاونت فراہم کرکے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

دوستم اور ان کی ملیشیا پر 2002ء کے اوائل میں دو ہزار سے زائد طالبان قیدیوں کے قتل کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں دوستم کی طالبان کو حالیہ دھمکی کا مخاطب تمام جنگجو نہیں بلکہ شاید وہ بھی صدر غنی کی طرح ہتھیار پھینکنے والے جنگجووں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرسکتے ہیں۔

افغان حکام کا موقف رہا ہے کہ ان کی جانب سے بارہا دیے جانے والے مفاہمت کے پیغامات کا مخاطب وہ طالبان ہیں جو عسکریت پسندی ترک کرکے معمول کی زندگی گزارنے کےخواہش مند ہوں۔

ساتھ ہی حکام اس عزم کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ وہ ہتھیار پھینکنے سے انکار کرنے والے طالبان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔

تاحال طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔ طالبان ماضی میں کئی بار واضح کرچکے ہیں کہ وہ اس وقت تک افغان حکومت سے بات چیت نہیں کریں گے جب کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی واپس نہیں چلے جاتے۔