تحریک طالبان افغانستان کے سرکردہ کمانڈر نیک محمد رہبر پر پیر کی شام پشاور میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے جب کہ افغانستان کے صوبے ننگرھار کے گورنر نے نیک محمد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
سرکاری سطح پر نیک محمد رہبر اور ان کے ساتھیوں پر حملے سے متعلق کسی قسم کا بیان سامنے نہیں آیا۔ البتہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے پہاڑی پورہ تھانے میں درج رپورٹ کے مطابق نیک محمد رہبر جب جی ٹی روڈ پر حاجی کیمپ سے کوہاٹ جا رہے تھے تو ایک موٹرسائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے ان کی گاڑی پر جدید خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔
فائرنگ کے نتیجے میں نیک محمد رہبر موقع پر ہلاک جب کہ گاڑی میں سوار ان کے دیگر دو ساتھی زخمی ہوگئے تھے۔
واقعے کے بعد پشاور پولیس نے نیک محمد کے ساتھ سوار فرید خان نامی شخص کی رپورٹ پر نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
پشاور پولیس کے پاس درج مقدمے میں نیک محمد رہبر کے زخمی ساتھیوں کے نام مصطفیٰ ولد محمد علی اور فرید خان ولد مہتاب الدین بتائے گئے ہیں۔ ان دونوں زخمیوں کا تعلق افغانستان سے ہے اور وہ نیک محمد رہبر کے ساتھ ہی نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک کے نواح میں واقع افغان پناہ گزینوں کے کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔
دوسری جانب ایک سینئر افغان صحافی نے نیک محمد رہبر کے نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں ہلاکت کی تصدیق کی۔ لیکن انہوں نے داعش کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے سے اتفاق نہیں کیا۔
افغان صحافی کا کہنا تھا کہ یہ لوگ سرحد پار افغانستان میں عام لوگوں کے خلاف ظالمانہ کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کام کسی متاثرہ فرد یا افراد کی انتقامی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے تصدیق کی نیک محمد رہبر اس وقت مشرقی افغانستان میں طالبان کے اہم جنگی کمانڈر تھے۔
ادھر افغان خبر رساں ادارے ’پژواک‘ کے مطابق پاکستان سے ملحقہ سرحدی صوبے ننگرھار کے گورنر ضیا الحق امرخیل نے ایک بیان میں کہا کہ نیک محمد رہبر کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے حاجی کیمپ کے علاقے میں قتل کر دیا گیا ہے۔ ان کے دو ساتھی زخمی بھی ہوئے ہیں۔
'حملہ آپس کے اختلافات کا نتیجہ ہوسکتا ہے'
خیبرپختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ عسکریت پسند تنظیموں میں شامل کمانڈروں اور جنگجوؤں میں اختیارات اور وسائل پر اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور طالبان کمانڈر نیک محمد رہبر پر ہونے والا حملہ آپس کے اختلافات کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
طالبان کمانڈر کے قتل کی ذمہ داری داعش کے قبول کرنے کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ داعش کا پاکستان میں کتنا اثر و رسوخ ہے۔ پاکستان میں حکام ابھی تک ملک میں داعش کے وجود یا نیٹ ورک سے انکار کرتے آئے ہیں۔
داعش کی ذمہ داری
پاکستان کے اعلیٰ سرکاری حکام کا دعویٰ ہے کہ ملک کے کسی بھی علاقے میں عسکریت پسند تنظیم داعش کا وجود نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود تنظیم حالیہ مہینوں میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے۔
نیک محمد رہبر کے قتل سے پہلے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ملحقہ کچلاک شہر میں طالبان رہنماؤں پر حملوں کی ذمہ داریاں بھی داعش نے قبول کی تھی۔
نیک محمد رہبر کون تھے؟
نیک محمد رہبر کی عمر35 سے 40 برس کے درمیان تھی اور ان کا شمار تحریک طالبان افغانستان کے اہم ملٹری کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ ان کا تعلق صوبۂ ننگرھار کے علاقے خوگیانی کے ضلع شیرزا سے بتایا جاتا ہے۔
SEE ALSO: کیا پاکستانی طالبان دوبارہ سر اُٹھا رہے ہیں؟نیک محمد رہبر کا خاندان گزشتہ چار دہائیوں سے اکوڑہ خٹک کے نواح میں واقع افغان پناہ گزینوں کی خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے۔
نیک محمد رہبر کے کاکا کے نام سے مشہور ایک بھائی بھی طالبان کے اہم کمانڈروں میں سے ایک ہیں۔
علاوہ ازیں ننگرہار سے تعلق رکھنے والے ایک فرد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ نیک محمد رہبر اور ان کے بھائی کو اس وقت لگ بھگ ساڑھے تین ہزار جنگجوؤں کی حمایت حاصل ہے اور یہ جنگجو ننگرہار سمیت افغانستان کے مشرقی علاقوں میں افغان سیکیورٹی فورسز ، سرکاری املاک اور ملازمین پر حملے کرتے رہتے ہیں۔