یہ راولپنڈی میں 16 دسمبر 1971ء کی ایک سرد شام تھی۔ سب اپنے لحافوں میں دُبکے بیٹھے تھے۔ کچھ انگیٹھیوں کو اپنے قریب کر رہے تھے کہ سردی کے باعث خبر کا کوئی حصہ سننے سے رہ نہ جائے۔
کمرے میں ایک سکوت طاری تھا۔ بچوں کے چہروں کو لحاف کے کونوں میں چھپا دیا گیا تھا کہ کوئی آواز نہ نکالے۔ سب کی نظریں ٹیلیوژن کی سکرین پر جمی تھیں۔ گھڑی کی سوئی ٹک ٹک کر رہی تھی کہ ایک وہی آواز تھی جو گونج رہی تھی۔
میرے نانا، حاکم مرزا برلاس (مرحوم) ٹی وی سیٹ کے بالکل قریب سب سے آگے اپنی ایک لمبی آرام کرسی پر کمبل اوڑھے بیٹھے تھے اور ایک انگیٹھی انکے دونوں پیروں کے بیچ جمی ہوئی تھی۔ کبھی کبھی وہ ایک لکڑی سے انگاروں کو آگے پیچھے کرتے تاکہ آگ کی تپش کم نہ ہونے پائے۔ چونکہ وہ خبریں بہت انہماک سے سنتے تھے، اس لئے کسی کی جراٴت نہ تھی کہ آواز نکالے۔ اور خبر بھی بہت اندوہناک آنے والی تھی۔ چونکہ مشرقی پاکستان میں جنگ زوروں پر جاری تھی اور افواہ یہی تھی کہ حصہ جا رہا ہے۔
ٹی وی اشتہار ختم ہوئے۔ خبرنامے کا ابتدائی میوزک شروع ہوا۔ گھڑی نے نو بجائے اور خبرنامے کا آغاز ہوا۔
سلطان غازی سکرین پر تھے۔ چہرہ انتہائی سنجیدہ اور غم زدہ مگر پیشہ ورانہ وقار اور متانت کے ساتھ بھاری بھرکم آواز کے ساتھ انہوں نے سُقوطِ ڈھاکہ کا اعلان کیا اور پھر تفصیلات کے ساتھ ایک فلم بھی دکھائی گئی جس میں پاکستان کی شکست کا منظر دکھایا گیا۔
نانا جان نے جو فوج سے ریٹائرڈ کیپٹن تھے، زور سے ہاتھ اپنے گھٹنے پر مارا اور نعرہ لگایا: ’’گیا۔ چلا گیا۔ مشرقی پاکستان گیا‘‘؛ اور ایک انتہائی دکھ بھری آہ کھینچی کہ ’’آدھا ملک چلا گیا‘‘۔ ساتھ میں بیٹھی خالہ اور امی کی بھی سسکیاں سنائی دینے لگیں۔ ماحول مزید سوگوار ہوگیا۔
پورے شہر اور ملک کی فضا سوگوار ہوگئی۔ باہر سڑکوں پر مرد حضرات ٹولیوں کی شکل میں خاموش بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کوئی کس سے کیا کہے۔
جس طرح امریکہ میں ایک معتبر اور مشہور اینکر، والٹر کرونکائٹ کے اس اعلان کے بعد کہ جان ایف کنیڈی کو قتل کر دیا گیا ہے، لوگوں کو خبر کی صداقت کا یقین آیا تھا؛ اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے تھے۔ اُسی طرح پاکستانی عوام میں ایک انتہائی قابلِ عزت اور قابلِ اعتبار نیوز کاسٹر، سلطان غازی کو سن کر لوگ سمجھ گئے کہ ملک دو لخت ہو گیا ہے۔
یہ تھے سلطان غازی اور ان کا مقام
دھیما لہجہ، باوقار انداز، ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک حرف صاف۔ تلفظ غلطیوں سے پاک۔ جملوں اور ادائیگی پر مکمل عبور اور ٹھہراؤ۔ اور سانس پر ایسا کنٹرول کہ پہلا جملہ شروع کرتے اور نو دس جملوں کے پورے پیراگراف کو اس طرح ادا کرتے کہ کہیں سانس ٹوٹنے نہ پاتا۔ بلکہ جس طرح کلاسیکی گلوکاری کا کوئی استاد آلاپ لیتے ہوئے مرکیاں لگاتا ہے اسی طرح وہ جملوں کے درمیان وقفوں کو ایسے ادا کرتے کہ کہیں کوئی لفظ ایک دوسرے پر چڑھا نظر نہیں آتا۔ یہ بھی نہیں لگتا تھا کہ بہت تیز پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت اطمینان سے سانس ختم ہوتا تھا اور جملہ بھی مکمل ہو جاتا تھا۔
چونکہ وہ خود ایک بڑے صحافی تھے، اس لئے پوری خبر کی گہرائی جانتے تھے اور ادائیگی میں وہ اعتماد نظر آتا تھا جو دوسرے نیوزکاسٹرز میں شاذ ہی نظر آتا۔
راولپنڈی کے گورڈن کالج میں تعلیم کے دوران ہی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ لکھنے اور بولنے کا شوق تھا اس لئے تقریری مقابلوں کے ساتھ ساتھ کالج میگزین کے لئے لکھنا بھی شروع کر دیا تھا۔
کم عمری میں ہی سگریٹ نوشی کا سہارا لیا، تاکہ اور لڑکوں میں نمایاں ہو سکیں اور ذرا بردبار نظر آئیں۔
ان کے والد بزرگوار عبد الجبار غازی مذہبی رجحان رکھنے والے ایک عالم تھے جنہوں نے علیگڑھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تھا۔ انہوں نے راولپنڈی میں ایک سکول، ’مدرسہ ملیہ اسلامیہ‘ کے نام سے قائم کیا تھا۔ ٹوپی اور شیروانی پہنتے تھے اور سکول میں علیگڑھ یونیورسٹی کی طرز پر ہی اخلاقی، مذہبی اور تہذیبی اقدار پر زور دیا جاتا تھا۔ سلطان صاحب کے ایک بھائی فرقان غازی بھی وہاں پڑھاتے تھے اور بعد میں پرنسپل ہو گئے۔
سلطان صاحب کے دوسرے بھائی عرفان غازی جماعتِ اسلامی کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے۔ کتابوں کے مصنف اور معروف صحافی تھے۔ مگر، غازی صاحب بالکل دوسری طبیعت کے مالک اور بائیں جانب رجحان رکھتے تھے۔ اور ان کی صحافت کا بھی یہی انداز تھا اور یہی مزاج انہیں چین بھی لے گیا، جہاں وہ چار سال ریڈیو پیکنگ کے ساتھ رہے۔
کالج کے زمانے میں ہی ان کے ایک کلاس فیلو محمد عارف ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے منسلک تھے جہاں وہ فیچر، تقریریں اور مقامی خبریں تحریر بھی کرتے تھے اور پڑھتے تھے۔ بعد میں وہ پروڈیوسر ہوگئے اور ذمے داریاں بدل گئیں تو خبروں کے لئے کسی دوسرے شخص کی ضرورت محسوس ہوئی تو عارف صاحب، سلطان غازی کو پکڑ کر لے گئے اور نیوز روم میں بٹھا دیا کہ ترجمہ بھی کرو اور خبریں پڑھو بھی۔ یوں وہ براڈکاسٹنگ کی دنیا میں داخل ہوئے۔
لکھنے لکھانے کا شوق جاری رہا۔ وہ چیخوف جیسے مصنفوں کے تراجم بھی کرتے رہے اور ریڈیو کے لئے ڈرامے بھی تحریر کرتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ اخبار مشرق اور امروز سے بھی منسلک رہے۔ اخبار سے یہ رشتہ انہیں پنڈی سے لاہور لے گیا جہاں 1964 میں پاکستان ٹیلیوژن کا آغاز ہوا تو اس کے جنرل منیجر اسلم اظہر صاحب نے انہیں بلا بھیجا کہ آپ خبریں لکھتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی تو ہمارے ہاں سے خبروں کا بلیٹن شروع کریں اور معاوضے کیلئے خالی چیک ان کے سامنے رکھ دیا کہ جو چاہے طے کر لیں۔
یوں، سلطان غازی صاحب کو پاکستان ٹیلیوژن کے پہلے نیوز کاسٹر بننے کا منفرد اعزاز حاصل ہو گیا۔
وہ مستقل خبریں پڑھتے رہے کہ اس دوران اسلم اظہر راولپنڈی چلے آئے تو انہیں بھی ساتھ لے آئے اور پنڈی ٹی وی کا آغاز ہوا تو خبرنامے کا سہرا سلطان غازی کے سر رہا۔
لیکن، ان کے لکھنے کا شوق جاری رہا۔ ٹی وی پلے لکھتے بھی رہے اور اداکاری بھی کرتے رہے۔ لیکن، پھر خبریں پڑھنے والوں پر اداکاری کی پابندی لگ گئی تو وہ صرف خبروں سے ہی منسلک ہو گئے۔
عوام میں انہیں بے انتہا مقبولیت حاصل تھی۔ لوگ خبرنامے کا بےچینی سے انتظار کرتے اور انکی خبروں کی ادائیگی پر خوب داد دی جاتی۔
یہی وہ وقت تھا جب ہم بھی ریڈیو اور ٹی وی کی دنیا میں داخل ہو رہے تھے۔ ریڈیو پر اناؤنسمنٹ کے ساتھ ساتھ ڈراموں میں صداکاری بھی جاری تھی اور یہی شوق ہمیں ٹی وی لے گیا۔ اداکار بننے کا جنون تھا اور خود کو چھوٹی سکرین سے بڑی سکرین تک پرواز کرتا دیکھ رہے تھے۔ مگر تقدیر کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔
اس لئے جب رات بھر ڈراموں کی ریہرسل، داڑھی موچھوں کا میک اپ اور کئی کئی دن کی شوٹنگ کا سامنا ہوا تو فوراً ہار مان لی اور بھاگے نیوز روم کی طرف جہاں خبرنامہ نئے انداز کا شروع ہوا تھا اور اس میں موسم کا حال اور پس پردہ نیوز فلم کے لئے آوازوں کی ضرورت تھی۔ چونکہ پہلے بھی کچھ دستاویزی فلموں کے لئے آواز دے چکے تھے اس لئے خبروں میں یہ کام آسان ہو گیا۔
اب سلطان غازی صاحب خبرنامہ پڑھتے اور ہم پسِ پردہ فلم کومنٹری کرتے۔ یوں اس قابل استاد اور ایک ماہر براڈکاسٹر کے زیر سایہ آنے کا خود بخود موقع مل گیا اور ہماری مفت میں تربیت شروع ہو گئی۔
اب قسمت کی خوبی دیکھئے کہ نیوز والوں کو ایک پانچ منٹ کا بلیٹن شام کے وقت شروع کرنے کا خیال آیا تو نظِر انتخاب ہم پر پڑی اور کہا گیا کہ آج ہی خبریں پڑھنی ہیں۔
ایک ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئ کیونکہ یہ بھٹو صاحب کا دور تھا اور اسلم اظہر صاحب مینیجنگ ڈائرکٹر بن چکے تھے۔ چونکہ بھٹو صاحب بند گلے کا چائینیز کوٹ پہنتے تھے اس لئے اسلم صاحب نے یہی یونیفارم مرد نیوزکاسٹرز کی بھی مقرّر کر دی۔ سلطان صاحب اور اظہر لودھی اپنے کوٹ میک اپ روم میں ہی چھوڑ جاتے تھے۔
اب جب ہمیں ضرورت پڑی تو دونوں کے کوٹ پہن کر دیکھے۔ لیکن غازی صاحب کا کوٹ فٹ آگیا۔
خبریں تو پڑھ لیں۔ اب غازی صاحب سے خوف بھی تھا کہ ناراض ہی نہ ہو جائیں۔ ان کا رعب بہت تھا اور ہم بہت جونیئر تھے۔ رات کو آئے تو ان سے معذرت کے بعد بتایا کہ یہ گستاخی ہوگئی ہے۔ بولے تو کچھ نہیں، مسکرا کر رہ گئے۔
پھر ایک مرتبہ ٹی وی سے گھر جانے کے لئے رات کے وقت ہم باہر کھڑے تھے تو غازی صاحب اپنی موٹر سائیکل پر گزرے تو پوچھا کہاں جانا ہے۔ بڑی خوشی ہوئی۔ کہا ''جہاں ٹیکسی مل جائے وہاں چھوڑ دیں''۔ اس طرح انکے ساتھ سواری کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا۔
کبھی کبھی ہم کوئی تلفظ یا خبروں سے متعلق کوئی اصلاح لے لیتے تو بہت خوشی سے بتاتے اور جب میں نے انہیں بتایا کہ میں ان کے چھوٹے بھائی عفّان غازی کا کلاس فیلو ہوں تو انکی شفقت کا انداز بدل گیا جو وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا گیا۔
بھٹو کے دور تک وہ بہت خوش تھے۔ اسی دوران میں 1976میں ان کا ریڈیو پیکنگ کے لئے انتخاب ہو گیا اور وہ تقریباً چار سال کے لئے چلے گئے۔ 1980 میں واپس آئے تو وقت بدل چکا تھا ضیاالحق چھا چکے تھے۔
اسلامی دور کا چرچا تھا۔ لہٰذا، چین سے آنے کی بنا پر یار دوستوں نے اُن پر جھوٹا الزام لگا دیا کہ وہ کمیونسٹ نظریات رکھتے ہیں۔ مقصد اُنہیں ٹی وی پر آنے سے روکنا تھا اور یہ ہوا بھی۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ایک اسلامی گھرانے کے پروُردہ تھے۔ نماز روزے کے بہت پابند نہیں تھے، لیکن بہت سے نام نہاد مسلمانوں سے زیادہ اچھے مسلمان تھے۔ حق حلال کی روزی کمانے والے انتہائی ایماندار شخص تھے جنہوں نے اپنے بچوں کو بھی ہمیشہ راہِ راست پر رکھا اور کبھی اپنے کام میں یا کسی سے بے ایمانی نہیں کی نہ ہی کسی کو نقصان پہنچایا۔ اپنی زندگی میں ہی مکان اور گاڑیوں کی ادائیگی کردی اور کبھی کریڈٹ کارڈ استعمال نہیں کیا کہ قرضے کا جھنجھٹ نہ ہو۔ تو ایسے اچھے مسلمان پر یہ الزام بڑا تکلیف دہ تھا۔ ریڈیو اور ٹی وی کے دروازے اُن پر بند ہو چکے تھے ایسے میِں اُن کے دیرینہ ساتھی اور دوست خواجہ شمس الحسن مدد کو آئے جو اس وقت 'یو ایس آئی ایس' کے انچارج تھے۔ انہیں امریکہ جانے کا مشورہ دیا اور وائس آف امریکہ میں ان کا انتخاب ہو گیا۔
اور یہ بھی عجب اتفاق تھا کہ برسوں بعد ہم بھی یہاں چلے آئے تو غازی صاحب کے ساتھ والا ڈیسک ہمیں ملا، جو ہماری محبتوں کو بڑھانے اور اُن سے مزید سیکھنے کا سبب بنا۔ پھر انہوں نے ہمیں گھر آنے کی دعوت دی جہاں اُنکی بےحد سلیقہ شعار گھر گھرستی اور کھانے پکانے میں ماہر اہلیہ، رقّیہ سے ملاقات ہو گئی جنہیں سب پیار سے رُکّی کہتے ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے ہمیں اپنا بھائی بنا لیا اور پھر ہمیشہ سگوں سے بڑھ کر پیار دیا۔ ساتھ ہی انکے بڑے ہونہار بچوں عامر اور حنا سے بھی ملاقات ہوگئی۔ وقت کے ساتھ دونوں خاندان قریب آتے گئے اور تعلقات دفتری سے گھریلو ہوگئے۔ بچوں کی شادیاں دیکھیں اور پھر میرے لئے خوشی کا اس سے بڑا مقام کیا ہو سکتا ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی میری بیٹی مدیحہ کی شادی میں خصوصی طور پر پاکستان گئے اور بیٹی حنا انہیں چھوڑنے گئیں۔
ایسا احترام کرنے والے اور پیار کرنے والے بچے ایک مثال ہیں جب ان بچوں کے بچے ہوئے تو ہم نے غازی صاحب کو دادا اور نانا کے روپ میں بھی دیکھا۔ شفقت کا ان کا یہ انداز بھی نرالا تھا؛ اور یہی محبت انہیں دسمبر کے مہینے میں ہیوسٹن لے گئی جہاں حنا نے ایک بہت خوبصورت اور بڑا گھر بنایا ہے اور جس میں ماں باپ کے لئے کمرہ مخصوص ہے جس کے باہر والد کے شوق کے لئے باغیچہ بھی بنوایا، تاکہ ان کا دل لگا رہے۔
اسی دوران، بچوں کی چھٹیاں ہوئیں تو سب خاندان تفریح کی غرض سے اورلینڈو چلا گیا۔ اور، وہیں پانچ جولائی کی صبح وہ ایک انتہائی خوشگوار اور یادگار زندگی گزارنے کے بعد اپنی جاں نثار کر دینے والے بچوں اور پوجا کی حد تک پیار کرنے والی بیوی کو سوگوار کرکے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
اور چھ جنوری کی ایک سرد ترین شام جب ہم اور اُن کے بے شمار چاہنے والے انہیں انکی آخری منزل پر پہنچانے کے بعد واپس پلٹ رہے تھے تو میرے کانوں میں وہی شاندار آواز گونجتی محسوس ہوئی کہ ''اِس کے ساتھ ہی خبرنامہ ختم ہوا''۔