متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ فوج اس بات پر سنجیدہ ہے کہ نگراں حکومت ایسے شفاف الیکشن کروائے جس کے نتائج سب کو قابلِ قبول ہوں۔
انتخابی مہم کے احتتام پر کراچی میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار اسی حد تک ہونا چاہیے کہ وہ یقینی بنائیں کہ صاف و شفاف الیکشن ہوں ہی نہ بلکہ ہوتے ہوئے نظر بھی آئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ پاکستان کو ایک بار پھر سے تجربہ گاہ بنایا جائے۔
وفاق میں آئندہ حکومت کے امکان پر بات کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وفاق میں حکومت کا فیصلہ پنجاب کرتا ہے اور پیپلز پارٹی ایک عرصے سے اس صوبے سے نشستیں حاصل نہیں کر رہی۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ نواز شریف سے جو ان کی حالیہ بات چیت ہوئی اس سے اندازہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کافی چیزوں میں بدلے ہوئے اور آگے بڑھیں ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ وہ پر امید ہیں کہ 75 سال کے بعد عام پاکستانی کے لیے اختیارات کی منتقلی کے خواب کو نواز شریف کے ساتھ مل کر شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔
'اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ نہیں مزید ترمیم چاہتے ہیں'
خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے پاکستان کو بڑے مسائل دیے ہیں تاہم متحدہ اس آئینی ترمیم کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کے لیے کچھ مزید ترامیم چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ اٹھارہویں آئینی ترمیم کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس پر مكمل عمل درآمد کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم اختیارات کی منتقلی کے لیے ہوئی تھی اختیارات کے تسلسل کے لیے نہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم نے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 140 اے کو شامل کروایا تھا تاکہ بلدیاتی اداروں کا قانون بنایا جائے۔
'فوج کو تحفظات ہیں کہ وفاق کے پاس دفاع کا بجٹ نہیں'
خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر فوج کو بھی تحفظات ہو سکتے ہیں کیوں کہ قرضوں کی ادائیگی اور وفاقی ترقیاتی اخراجات کے بعد وفاق کے پاس دفاع کے لیے بجٹ ہی نہیں بچتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر صوبائی حکومتیں وفاق سے حاصل بجٹ کو صوبے میں ترقی، تعلیم و صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر صرف کریں تو وفاق کو وفاقی ترقیاتی پروگرام کی ضرورت ہی نہیں ہو گی اور اس مقصد کے لیے لگائے جانے والا بجٹ دفاع اور دیگر ضرورتوں کے لیے لگایا جا سکے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول "وفاق سے صوبوں کو آنے والا بجٹ اگر بلدیاتی نظام کو منتقل کیا جاتا ہے تو وفاق کو ترقیاتی بجٹ کی اتنی ضرورت رہے گی نہیں اور وہ (وفاق) فوج کے دفاعی بجٹ پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔"
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس صورت میں فوج کے اٹھارہویں ترمیم پر تحفظات دور ہو جائیں گے۔
ایم کیو ایم سربراہ نے تسلیم کیا کہ شہباز شریف کی اتحادی حکومت میں شامل ہونے کے لیے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے مطالبات اٹھانا چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے چار اراکین قومی اسمبلی نے مردم شماری کا مقدمہ لڑا اور کراچی کے مردم شماری کے نتائج کو کسی حد تک درست کروایا۔
خالد مقبول صدیقی نے امید ظاہر کی کہ الیکشن کے نتائج میں عوام کی رائے نظر آئے گی اور کوئی پالیسی اس میں آڑے نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ یقین اس وجہ سے بھی ہے کہ 2018 کا تجربہ کامیاب نہیں رہا ہے جب کراچی شہر کی زیادہ تر نشستیں ایم کیو ایم کے پاس نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی ایم کیو ایم کے پاس واپس آ گیا ہے اور ان کی کوشش ہوگی کی کراچی کا مینڈیٹ ایوانوں میں نظر آئے ورنہ سڑکوں پر تو ہم ہیں ہی۔
اتحاد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس حوالے سے ان کے پاس انتخابات محدود ہیں کیوں کہ دو ہی جماعتیں ہیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جن کے ساتھ ماضی کے اتحاد کا تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔
خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ الطاف حسین کی واپسی کا فیصلہ سیاست کا نہیں بلکہ ریاست کا ہے۔ ان کے بقول ریاست اگر الطاف حسین کو واپس لانا چاہتی ہے تو لائے لیکن ضروری نہیں کہ 22 اگست کے بعد کی ایم کیو ایم ان کے ساتھ چلے۔
ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی واپسی کے امکانات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الطاف حسین کو ہم اپنا محسن سمجھتے رہے ہیں۔ لیکن 22 اگست کے بعد ہمیں الطاف حسین کی محبت اور پاکستان کی حرمت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر الطاف حسین پاکستان آکر سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو لیں لیکن کراچی نے 22 اگست کو آنے والی تبدیلی کو قبول کرلیا ہے۔
خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ عمران خان کو بتا دیا تھا کہ وہ جس راستے پر جا رہے ہیں وہ اس صورتِ حال میں لے جائیں گے جس کا انہیں آج سامنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو جو عدالتی مقدمات میں سزائیں ہوئی ہیں اگر یہ انصاف ہے تو اسے قبول کیا جائے اور اگر انتقام ہے تو قبول نہ کیا جائے۔
ان کے بقول انہیں عدالت کی جانب سے عمران خان کو سنائی گئی سزاؤں میں انتقام کی بو نہیں آتی ہے بلکہ یہ مکافاتِ عمل ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ان کا عمران خان کو یہی مشورہ ہوگا کہ وہ نیوٹرلز سے مدد کی بجائے اپنے بلبوتے پر جینے کا حوصلہ پیدا کریں۔