خیر کسی نہ کسی طرح میرے گھر کہ دروازے پر پہنچے۔ میرا کمرہ گھر کی اوپر کی منزل پر تھا۔ جب شور ہوا، تو میں نے جھانک کر بالکنی سے دیکھا۔ ان سب کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ پوچھا کیا بات ہے ؟ تو انہوں نے کوئی جواب دئے بغیر کہا فوراً آجاؤ، ٹی وی جانا ہے۔ ٹائم نہیں ہے
واشنگٹن —
’خبرنامہ‘ پڑھتے ہوئے شاید ایک دو ہی دن ہوئے تھے کہ بھٹو صاحب کی یہ تقریر کا سلسلہ آگیا۔ تقریر انگریزی میں تھی اور وہ بھی سو منٹ کی۔ لہٰذا، جب فیصلہ ہوگیا کہ اسکا دوسرے ہی دن اسی وقت، یعنی رات نو بجے ترجمہ جانا ہے، تو پھر تلاش ہوئی اسکو پڑھنے والے کی۔ اور بتاچکا ہوں کہ ٹی وی کے نئے منیجنگ ڈائرکٹر اسلم اظہر صاحب کی تعریف کے بعد مجھے خبرنامہ پڑھنے کیلئے بلایا گیا۔
تعریف تازہ تازہ ہوئی تھی اس لئے کچھ مہربانوں نے،شاید اسلم صاحب کو خوش کرنے کیلئے یا پھر ہماری ہمدردی میں، کہ دیاکہ جی وہ خالد حمید سے تقریر کا ترجمہ پڑھوا لیں ۔نئی آواز ہے اور نوجوان بھی۔
زبیر علی صاحب،ڈائریکٹر نیوز تھے اور اس وقت ،نیوز روم میں بیٹھےتقریر کے ترجمے کی کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے۔ فوراً بولےsuggestion good--تو پھر خالد کو بلا لو۔
وہ تو یہ حکم دے کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے،لیکن نیوز روم میں کھلبلی مچ گئی۔
مسئلہ یہ تھا کہ رات کے بارہ بج رہے تھے،اُس وقت خالد حمید کو کون تلاش کرے،کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے،فون نمبر بھی کوئی نہیں تھا،چند دن پہلے تو اس نے آناشروع کیا تھا،وہ اپنی موٹر سائیکل پر آتا ،خبریں پڑھ کر چلا جاتا۔لیکن، زبیر علی کو کون بتائے کہ ہمیں اُسکا پتہ معلوم نہیں ۔
اللہ غریقِ رحمت کرے، زبیر صاحب بڑے دبنگ قسم کے افسر اور ایک کامیاب ڈائریکٹر نیوز تھے ۔
وہ جناب آغا ناصر،فضل کمال اور دوسرے انتہائ قابل اور ماہر افسروں کے ساتھ اسلم اظہر کی اس ٹیم میں شامل تھے جس نے ٹی وی کو عروج بخشا۔مجھ سے وہ خصوصی شفقت فرماتے تھے اور، مجھے ایک نیوز کاسٹر بنانے میں انکا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
بی بی سی ریڈیو اور ریڈیو پاکستان میں خدمات انجام دینے کے علاوہ، وہ بھٹو کے پریس سیکرٹری بھی رہے تھے۔ لہٰذا، ان کا غصے ناک ہونا سمجھ میں آتا تھا , اور ان کے سامنے بولتے ہوئے لوگ گھبراتے تھے۔اسلئےسب خاموش رہے کہ جب پوچھا جائے گا تو کوئی بہانہ بنا دیں گے۔
گھنٹہ ڈیڑھ گزرنے کہ بعد، زبیر صاحب کو پھر خیال آیا کہ خالد کہاں ہیں۔اب رضی احمد رضوی کو ،جو نیوز روم کے انچارج تھے، جواب دینا تھا۔ فوراً، ایک بہانہ سوجھا کہ جی وہ خالد گھر پر نہیں ملے۔کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔
خیال تھا کہ بات ٹل جائے گی۔ لیکن، وہ بہانہ اُلٹا پڑ گیا۔ زبیر صاحب فوراً بولے،good۔چلو رابطہ تو ہو گیا۔ پیغام دے دو کہ جب وہ گھر آئےتویہاں آجائے۔ ابھی تو ہمیں بھی ترجمے میں ٹائم لگے گا۔
اب یہ کون صفائی پیش کرتا کہ جناب اس سےکوئی رابطہ نہیں ہوا ، ہمیں تو اسکا اتا پتا معلوم ہی نہیں ہے۔
مرتا کیا نہ کرتا۔اب صحیح معنوں میں تلاش شروع ہوئی کہ کسی سے پوچھا جائے کہ وہ خالد کو جانتا ہے۔ایسے میں کسی نے کہا کہ ذوالفقار قریشی سے پوچھیں، جواسوقت سٹینو ٹائپسٹ تھےاور کانٹریکٹ کا ریکارڈ رکھتے تھےکہ وہ کانٹریکٹ پر گھر کا ایڈریس دیکھیں۔
ترکیب کارگر ہوئی،قریشی نے، ،مدد کی اور ایڈریس نکال کر دیا۔یہ وہی ذوالفقار قریشی ہیں جو بعد میں ترقی کرتے کرتے، ماشا اللہ، کنٹرولر آف نیوز کے عہدے تک پہنچے۔
ایڈریس تو مل گیا،لیکن اُس پر کوئی فون نمبر نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ٹیلیفون ، شاذونادر ہی کسی کے گھر ہوتا تھا۔
لہٰذا، اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ خود جاکر گھر تلاش کیا جائے۔
تو جناب، ٹی وی کی وین نکلوائی گئی اور اُس میں،رضی صاحب،خود سوار ہوئے،ساتھ میں انہوں نے شکور صاحب کو لےلیا کہ ایک سے دو بہتر۔شکور صاحب نے شاہد سلیم کو آواز دے لی،جو ایک ٹرانسلیٹر تھے۔شاید ایک دو لوگ اور بھی تفریح کے لئے ساتھ ہو لئے کہ کام کرتے کرتے تھک گئے تھے۔
میں اُس زمانے میں راولپنڈی کے ایک پرانے علاقے میں رہتا تھا،جہاں گاڑی اندر تک نہیں جاتی،اتر کر جانا پڑتا تھا۔
تو رات کے کوئی تین بجے یہ لوگ گھر ڈھونڈ رھے تھے جو پرانے محلوّں میں ایک مشکل کام تھا۔سردیاں بھی تھیں تو انہوں نے طریقہ یہ نکالا کہ زور زور سے آوازیں دینی شروع کیں کہ جو کوئی نکلے گا اس سے پوچھ لیں گے۔
رضوی صاحب بتاتے ہیں کہ جب ہم آواز لگاتے تو کبھی کہیں سے کتوں کے بھونکنے اور کہیں سے بکروں کے ممیانے کی آوازیں آتی تھیں،اور کبھی کوئی بوڑھا زور سے کھنکارتا کہ شاید چور آگئے۔
خیر کسی نہ کسی طرح میرے گھر کہ دروازے پر پہنچے،میرا کمرہ گھر کی اوپر کی منزل پر تھا،جب شور ہوا، تو میں نے جھانک کر بالکنی سے دیکھا۔تو ان سب کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔پوچھا کیا بات ہے ؟ تو انہوں نے کوئی جواب دیئے بغیر کہا فوراً آجاؤ،ٹی وی جانا ہے۔ٹائم نہیں ہے۔میں گاڑی میں بیٹھا تو اتنے لوگوں کو دیکھ کر لگا کہ کوئی اغوا کی واردات ہے۔
راستے میں کسی نے کچھ نہ بتایا،ٹی وی پہنچے تو زبیر صاحب باہر کھڑے تھے،کہنے لگے آگئے شاباش ،چلو جلدی سے پڑھ لو ریکارڈنگ شروع کرنی ہےٹائم بالکل نہیں ہے۔
میں نے تقریر کے مسوّدے پر نظر ڈالی تو ہوش گم ہو گئے کہ یہ کاغذوں کا ایک انبار تھا۔ابھی حواس بحال نہیں ہوئے تھے کہ زبیر صاحب سر پر کھڑے تھے۔بولے ،بھئی پڑھ لیا ، ذرا سناوٴ۔
میں نے تو ابھی اُس پر پہلی نظر ڈالی تھی،لیکن کیا کرتا اس لئے،پڑھنا شروع کردیا۔
شکر یہ ہوا کہ چند صفحے بعد ہی انہوں نے کہا،ٹھیک ہے بس اب تم اسے جلدی سے ریکارڈ کروا دو،ہمیں اسے پہلی فلائٹ سے کراچی بھیجنا ہے۔
مسئلہ یہ تھا کہ اُن دنوں ٹی وی نیٹ ورک نہیں تھا،یعنی PTV کے پانچوں سٹیشن اپنی الگ الگ نشریات کرتے تھے۔ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے نہیں تھے۔ اور اگر کوئی قومی نوعیت کا یا کوئی اہم پروگرام ایک ساتھ سارے سٹیشنوں سے نشر کرنا ہوتا، تو بذریعہ ہوائی جہاز ان کو ویڈیو ٹیپ بھیجےجاتے، اور وہ ایک ہی وقت میں انہیں نشر کرتے۔
اب وقت کم تھا اور مقابلہ سخت۔
صبح کےتقریباً پانچ بج رہے تھے۔ دس بجے PIA کی فلائٹ کراچی جاتی تھی۔اور اُسوقت تکٍ اگر ریکارڈنگ مکمل نہ ہوتی تو پھر،سمجھئے کہ کراچی والے اس ترجمے سے محروم رہ جاتے اور اسکے بعد جو اس پر ہنگامہ ہوتا وہ الگ مسئلہ تھا۔
لہٰذا، چند لمحے بعد،نوید ظفر جھومتے جھامتے،مسکراتے ہوئے داخل ہوئے۔
باقی آئندہ، انشااللہ۔
تعریف تازہ تازہ ہوئی تھی اس لئے کچھ مہربانوں نے،شاید اسلم صاحب کو خوش کرنے کیلئے یا پھر ہماری ہمدردی میں، کہ دیاکہ جی وہ خالد حمید سے تقریر کا ترجمہ پڑھوا لیں ۔نئی آواز ہے اور نوجوان بھی۔
زبیر علی صاحب،ڈائریکٹر نیوز تھے اور اس وقت ،نیوز روم میں بیٹھےتقریر کے ترجمے کی کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے۔ فوراً بولےsuggestion good--تو پھر خالد کو بلا لو۔
وہ تو یہ حکم دے کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے،لیکن نیوز روم میں کھلبلی مچ گئی۔
مسئلہ یہ تھا کہ رات کے بارہ بج رہے تھے،اُس وقت خالد حمید کو کون تلاش کرے،کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے،فون نمبر بھی کوئی نہیں تھا،چند دن پہلے تو اس نے آناشروع کیا تھا،وہ اپنی موٹر سائیکل پر آتا ،خبریں پڑھ کر چلا جاتا۔لیکن، زبیر علی کو کون بتائے کہ ہمیں اُسکا پتہ معلوم نہیں ۔
اللہ غریقِ رحمت کرے، زبیر صاحب بڑے دبنگ قسم کے افسر اور ایک کامیاب ڈائریکٹر نیوز تھے ۔
وہ جناب آغا ناصر،فضل کمال اور دوسرے انتہائ قابل اور ماہر افسروں کے ساتھ اسلم اظہر کی اس ٹیم میں شامل تھے جس نے ٹی وی کو عروج بخشا۔مجھ سے وہ خصوصی شفقت فرماتے تھے اور، مجھے ایک نیوز کاسٹر بنانے میں انکا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
بی بی سی ریڈیو اور ریڈیو پاکستان میں خدمات انجام دینے کے علاوہ، وہ بھٹو کے پریس سیکرٹری بھی رہے تھے۔ لہٰذا، ان کا غصے ناک ہونا سمجھ میں آتا تھا , اور ان کے سامنے بولتے ہوئے لوگ گھبراتے تھے۔اسلئےسب خاموش رہے کہ جب پوچھا جائے گا تو کوئی بہانہ بنا دیں گے۔
گھنٹہ ڈیڑھ گزرنے کہ بعد، زبیر صاحب کو پھر خیال آیا کہ خالد کہاں ہیں۔اب رضی احمد رضوی کو ،جو نیوز روم کے انچارج تھے، جواب دینا تھا۔ فوراً، ایک بہانہ سوجھا کہ جی وہ خالد گھر پر نہیں ملے۔کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔
خیال تھا کہ بات ٹل جائے گی۔ لیکن، وہ بہانہ اُلٹا پڑ گیا۔ زبیر صاحب فوراً بولے،good۔چلو رابطہ تو ہو گیا۔ پیغام دے دو کہ جب وہ گھر آئےتویہاں آجائے۔ ابھی تو ہمیں بھی ترجمے میں ٹائم لگے گا۔
اب یہ کون صفائی پیش کرتا کہ جناب اس سےکوئی رابطہ نہیں ہوا ، ہمیں تو اسکا اتا پتا معلوم ہی نہیں ہے۔
مرتا کیا نہ کرتا۔اب صحیح معنوں میں تلاش شروع ہوئی کہ کسی سے پوچھا جائے کہ وہ خالد کو جانتا ہے۔ایسے میں کسی نے کہا کہ ذوالفقار قریشی سے پوچھیں، جواسوقت سٹینو ٹائپسٹ تھےاور کانٹریکٹ کا ریکارڈ رکھتے تھےکہ وہ کانٹریکٹ پر گھر کا ایڈریس دیکھیں۔
ترکیب کارگر ہوئی،قریشی نے، ،مدد کی اور ایڈریس نکال کر دیا۔یہ وہی ذوالفقار قریشی ہیں جو بعد میں ترقی کرتے کرتے، ماشا اللہ، کنٹرولر آف نیوز کے عہدے تک پہنچے۔
ایڈریس تو مل گیا،لیکن اُس پر کوئی فون نمبر نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ٹیلیفون ، شاذونادر ہی کسی کے گھر ہوتا تھا۔
لہٰذا، اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ خود جاکر گھر تلاش کیا جائے۔
تو جناب، ٹی وی کی وین نکلوائی گئی اور اُس میں،رضی صاحب،خود سوار ہوئے،ساتھ میں انہوں نے شکور صاحب کو لےلیا کہ ایک سے دو بہتر۔شکور صاحب نے شاہد سلیم کو آواز دے لی،جو ایک ٹرانسلیٹر تھے۔شاید ایک دو لوگ اور بھی تفریح کے لئے ساتھ ہو لئے کہ کام کرتے کرتے تھک گئے تھے۔
میں اُس زمانے میں راولپنڈی کے ایک پرانے علاقے میں رہتا تھا،جہاں گاڑی اندر تک نہیں جاتی،اتر کر جانا پڑتا تھا۔
تو رات کے کوئی تین بجے یہ لوگ گھر ڈھونڈ رھے تھے جو پرانے محلوّں میں ایک مشکل کام تھا۔سردیاں بھی تھیں تو انہوں نے طریقہ یہ نکالا کہ زور زور سے آوازیں دینی شروع کیں کہ جو کوئی نکلے گا اس سے پوچھ لیں گے۔
رضوی صاحب بتاتے ہیں کہ جب ہم آواز لگاتے تو کبھی کہیں سے کتوں کے بھونکنے اور کہیں سے بکروں کے ممیانے کی آوازیں آتی تھیں،اور کبھی کوئی بوڑھا زور سے کھنکارتا کہ شاید چور آگئے۔
خیر کسی نہ کسی طرح میرے گھر کہ دروازے پر پہنچے،میرا کمرہ گھر کی اوپر کی منزل پر تھا،جب شور ہوا، تو میں نے جھانک کر بالکنی سے دیکھا۔تو ان سب کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔پوچھا کیا بات ہے ؟ تو انہوں نے کوئی جواب دیئے بغیر کہا فوراً آجاؤ،ٹی وی جانا ہے۔ٹائم نہیں ہے۔میں گاڑی میں بیٹھا تو اتنے لوگوں کو دیکھ کر لگا کہ کوئی اغوا کی واردات ہے۔
راستے میں کسی نے کچھ نہ بتایا،ٹی وی پہنچے تو زبیر صاحب باہر کھڑے تھے،کہنے لگے آگئے شاباش ،چلو جلدی سے پڑھ لو ریکارڈنگ شروع کرنی ہےٹائم بالکل نہیں ہے۔
میں نے تقریر کے مسوّدے پر نظر ڈالی تو ہوش گم ہو گئے کہ یہ کاغذوں کا ایک انبار تھا۔ابھی حواس بحال نہیں ہوئے تھے کہ زبیر صاحب سر پر کھڑے تھے۔بولے ،بھئی پڑھ لیا ، ذرا سناوٴ۔
میں نے تو ابھی اُس پر پہلی نظر ڈالی تھی،لیکن کیا کرتا اس لئے،پڑھنا شروع کردیا۔
شکر یہ ہوا کہ چند صفحے بعد ہی انہوں نے کہا،ٹھیک ہے بس اب تم اسے جلدی سے ریکارڈ کروا دو،ہمیں اسے پہلی فلائٹ سے کراچی بھیجنا ہے۔
مسئلہ یہ تھا کہ اُن دنوں ٹی وی نیٹ ورک نہیں تھا،یعنی PTV کے پانچوں سٹیشن اپنی الگ الگ نشریات کرتے تھے۔ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے نہیں تھے۔ اور اگر کوئی قومی نوعیت کا یا کوئی اہم پروگرام ایک ساتھ سارے سٹیشنوں سے نشر کرنا ہوتا، تو بذریعہ ہوائی جہاز ان کو ویڈیو ٹیپ بھیجےجاتے، اور وہ ایک ہی وقت میں انہیں نشر کرتے۔
اب وقت کم تھا اور مقابلہ سخت۔
صبح کےتقریباً پانچ بج رہے تھے۔ دس بجے PIA کی فلائٹ کراچی جاتی تھی۔اور اُسوقت تکٍ اگر ریکارڈنگ مکمل نہ ہوتی تو پھر،سمجھئے کہ کراچی والے اس ترجمے سے محروم رہ جاتے اور اسکے بعد جو اس پر ہنگامہ ہوتا وہ الگ مسئلہ تھا۔
لہٰذا، چند لمحے بعد،نوید ظفر جھومتے جھامتے،مسکراتے ہوئے داخل ہوئے۔
باقی آئندہ، انشااللہ۔