امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد افغان امن مذاکرات کی کوششوں کے لیے ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں۔
زلمے خلیل زاد بدھ کو کابل پہنچے تھے جہاں انہوں نے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور دیگر رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
افغان رہنماؤں سے ملاقاتوں کے بعد خلیل زاد کے قطر کے دارالحکومت دوحہ روانہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جہاں وہ ممکنہ طور پر طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے۔
افغان صدر کے نائب ترجمان دعویٰ خان میناپال نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اشرف غنی نے زلمے خلیل زاد سے گفتگو کے دوران کہا کہ افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے جنگ بندی اور طالبان کے ملک سے باہر مبینہ ٹھکانوں کے معاملے کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
ادھر افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ نے امریکی سفارت کار سے ملاقات کے دوران افغان امن مذاکرات سے متعلق امریکہ اور طالبان کے ممکنہ مطالبات سے متعلق تبادلۂ خیال کیا ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ خلیل زاد کے ساتھ گفتگو میں امن کوششوں کی ترجیحات، امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت دوبارہ شروع ہونے اور تشدد میں کمی کے معاملات پر تبادلۂ خیال کیا گیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوں گے اور ان اقدامات پر گفتگو کریں گے جن سے افغان جنگ کا پر امن تصفیہ ممکن ہو سکے۔
SEE ALSO: خلیل زاد کا دورہ افغانستان و قطر، بین الافغان مذاکرات پر زوردریں اثنأ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بحال ہونے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا ہے یہ مذاکرات افغان دھڑوں کے درمیان بات چیت کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے اور افغانستان میں امن اور استحکام کا باعث بنیں گے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جمعرات کو جاری بیان کے مطابق پاکستان کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ افغان تنازع کا حل فوجی نہیں ہے بلکہ مفاہمت کے عمل سے ہی ممکن ہے اور مفاہمت کے عمل میں افغانستان کے تمام فریقین شریک ہوں۔
خیال رہے کہ زلمے خلیل زاد ایسے وقت طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات میں شامل ہو رہے ہیں جب حال ہی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کا تبادلے کو افغان امن مذاکرات کے لیے خوش آئند قرار دیا جا رہا تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کو جنگ بندی اور کابل حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت پر آمادہ کرنا چیلنج ہوگا۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ رواں سال ستمبر میں امن مذاکرات معطل ہونے کی ایک وجہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی سے انکار تھا۔ ان کے بقول امریکہ کا مؤقف تھا کہ طالبان امن معاہدے سے پہلے جنگ بندی کریں اور کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کریں۔
نجم رفیق کے مطابق اب طالبان کی طرف سے اس بات کا عندیہ دیا گیا ہو گا کہ وہ اپنے مؤقف پر نظرِ ثانی کے لیے تیار ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی سمیع اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اس وقت طالبان کے اندرونی حلقوں میں جنگ بندی کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔
SEE ALSO: امریکہ طالبان امن مذاکرات بحال ہونے کے امکانانہوں نے کہا کہ طالبان کے بعض حلقے جنگ بندی کے بارے میں سوچ و بچار کر رہے ہیں لیکن کچھ حلقے ابھی جنگ بندی کے حق میں نہیں ہیں۔
اگرچہ افغان امن مذاکرات سے متعلق فی الحال طالبان کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن طالبان یہ واضح کر چکے ہیں کہ مذاکرات کا سلسلہ وہیں سے بحال ہونا چاہیے، جہاں سے یہ ٹوٹا تھا۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال ستمبر میں کابل میں ایک حملے کے بعد امن مذاکرات اس وقت معطل کر دیے تھے جب دونوں فریقین نے ایک مجوزہ امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق کر لیا تھا۔