امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے عملے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے والے افغان اٹارنی جنرل آفس سے منسلک ایک وکیل اور ان کی ٹیم کے دیگر ارکان پیر کو دہشت گردی کے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
نامعلوم افراد نے کابل کے مشرقی علاقے میں اٹارنی جنرل آفس کے عملے کی کار پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں دو پراسیکیوٹرز سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
زلمے خلیل زاد نے اپنے ردِ عمل میں اس کارروائی کو امن دشمنوں کی جانب سے کیا جانے والا حملہ قرار دیا ہے۔
منگل کو اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اس حملے کی مذمت اور متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتا ہے۔
زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ یہ حملہ جس چیز کی نشان دہی کرتا ہے ہم اس سے با خبر ہیں۔ ان کے بقول امن مخالف ملکی و غیر ملکی قوتیں مفاہمتی عمل کو متاثر اور اس میں تاخیر چاہتی ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کا عمل جاری ہے جس کے بعد افغان حکومت، عمائدین اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات ہونا ہیں۔
منگل کو زلمے خلیل زاد نے فریقین پر زور دیا کہ وہ مفاہمتی عمل میں تاخیر کے بجائے بین الافغان مذاکرات کے لیے آگے بڑھیں تا کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے سیاسی تصفیے اور جنگ بندی پر بات چیت کی جائے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے عوام جنگ بندی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہم ان کی اس خواہش کے ساتھ کھڑے ہیں۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان اٹارنی جنرل کے عملے پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
طالبان ترجمان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ امن عمل کے کئی دشمن اور مخالفین ہیں۔ تمام فریقین کو اس طرح کی تخریب کاری پر تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
طالبان ترجمان کے مطابق وہ افغان اٹارنی جنرل آفس کے عملے پر ہونے والے حملے کی اپنے طور پر جامع تحقیقات کا آغاز کر رہے ہیں۔