اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غلطی سے ایک فلسطینی لڑکی کی تصویر کو کشمیری لڑکی کی تصویر ظاہر کرنے کی سفارتی غلطی کو محض چند روز ہی ہوئے تھے کہ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایشیا سوسائٹی کی ایک تقریب میں انکشاف کیا کہ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے ایک ملاقات میں اُنہیں پیشکش کی ہے کہ وہ کلبھوشن یادو کو افغانستان کے حوالے کرنے کے بدلے پاکستان کو مطلوب اُس دہشت گرد کو حوالے کر سکتا ہے جو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کا سرغنا تھا۔ خواجہ آصف کے اس بیان نے ایک نئے سفارتی تنازعے کو جنم دے دیا ہے۔
افغانستان نے کسی بھی ایسی پیشکش کی سختی سے تردید کی ہے۔ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمار کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حنیف اتمار اور خواجہ آصف کے درمیان ملاقات کے دوران مبینہ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے قطعاً کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
خواجہ آصف کے اس بیان سے پاکستان، بھارت اور افغانستان میں ایک کھلبلی مچ گئی اور اس حوالے سے طرح طرح سے سوال کھڑے ہو گئے۔
امریکہ میں مقیم جیو پولیٹکل تجزیہ کار اور کتاب افغانستان: سرد جنگ سے سونے کی جنگ تک کے مصنف ڈاکٹر آسم یوسف زئی نے ایک خصوصی گفتگو میں ہمیں بتایا کہ اُنہیں یقین نہیں ہے کہ اس طرح کی کوئی بات چیت ہوئی ہے۔ اُنہوں نے اس سلسلے میں افغان اور بھارتی حکومتوں کی طرف سے جاری ہونے والی تردید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ ایسی کسی بات چیت کا نہ تو کوئی ریکارڈ سامنے آیا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی تفصیل موجود ہے، لہذا ایسا بیان مکمل طور پر من گھڑت ہے۔ ڈاکٹر آسم یوسف زئی نے کہا کہ اگر کوئی ایسی بات چیت ہوئی بھی ہے تو بھی یہ مناسب نہیں تھا کہ خواجہ آصف ایشیا سوسائیٹی کے پلیٹ فام کو استعمال کرتے ہوئے ایسی بات کریں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ خواجہ آصف نے یہ بات شاید امریکی حلقوں کو کوئی پیغام پہنچانے کیلئے کہی کیونکہ صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے پاکستان کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی عدالت انصاف نے کلبشن یادو کی سزائے موت کو معطل کر دیا تھا اور عدالت کے اس فیصلے کو پاکستانی حلقوں کی جانب سے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ ڈاکٹر یوسف زئی کے مطابق ان تمام واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔
پاکستان کے ممتاز دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے ہمیں بتایا کہ اس انداز کے تبادلے مناسب نہیں ہوتے۔ اس تبادلے کی مبینہ پیشکش سے یہ بھرپور تاثر ملتا ہے کہ بھارت افغانستان کو پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔جنرل طلعت مسعود کا خیال ہے کہ کسی دوسرے ملک کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے بھارت اور پاکستان کو اپنے تعلقات میں دوطرفہ انداز اختیار کرنا چاہئیے اور اسی طرح پاکستان اور افغانستان کو بھی اپنے اختلافات باہمی رابطوں کے ذریعے ہی طے کرنے چاہئیں۔
اگرچہ خواجہ آصف کی طرف سامنے آنے والی اس گفتگو پر بہت سے حلقے حیرت کا اظہار کر رہے ہی، جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ اس خطے میں ہر انداز کے بیان سامنے آ سکتے ہیں لیکن پاکستانی وزیر خارجہ کو ایک امریکی تھنک ٹینک کے فورم میں ایسی بات نہیں کہنی چاہئیے تھی۔