خیبرپختونخواہ کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا ہے کہ صوبے کو قومی مالیاتی کمیشن این ایف سی ' سے رواں سال جون سے اس کا پورا حصہ نہیں مل رہا ہے اور مرکزی حکومت کی طرف سے صوبے کو ملنے والے مالی وسائل کی مدد میں لگ بھگ 119 ارب روپے مرکزی حکومت کی طرف واجب الادا ہیں۔
پشاور میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ صوبے میں پیدا ہونے والی بجلی کے منافع کے 61.2ارب روپے ، قبائلی اضلاع کیلئے 29.9 ارب روپے، جب کہ قومی مالیاتی کمیشن کے تحت ملنے والے شئیر کی مد میں 27.8 ارب روپے وفاق نے صوبے کو ادا کرنے ہیں۔
خیبر پختونخواہ کے وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت نے صوبے کو واجب الادا مالی سائل فراہم نہ کیے تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔تاہم وہ س بات کے خواہاں ہیں کہ یہ معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جائیں۔
تیمور جھگڑا نے صحافیوں کو بتایا کہ صوبے کو این ایف سی شئیر میں ملنے والے رقوم کی ادائیگی بھی پوری نہیں کی جارہی۔ وفاق کی جانب سے این ایف سی شئیر میں پچھلے سال کے 13 ارب ملاکر کُل 27 ارب سے زائد کا شارٹ فال ہے۔ انہوں بتایا کہ وفاق نے قبائلی اضلاع کیلئے 29.9 ارب صوبے کو ادا کرنے ہیں۔
SEE ALSO: کیا وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان اختلافات سے عسکریت پسند فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟انھوں نے الزام عائد کیا کہ وفاقی حکومت نے سابق قبائلی علاقوں یعنی سابقہ فاٹا کیلئے مالی سال2021-22 کے چوتھے کوارٹر کی 20 ارب روپے کی ادائیگی ابھی تک روکی ہوئی ہے۔
تیمور جھگڑا کا کہنا تھا کہ وفاق نے قبائلی اضلاع کا کرنٹ بجٹ 85 ارب کی بجائے 60 ارب کر دیا ہے اور یہ رقم تنخواہوں کی ادائیگیوں کیلئے ناکافی ہے۔ جب کہ صو بے میں عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کی رقوم کو بھی مکمل طور پر روک دیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت یا وزارت خزانہ سے خیبرپختونخواہ کے الزامات اور شکایات پر موقف لینے کی باربار کی کوششوں کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا ۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں حزب اختلاف کا موقف
خیبرپختونخواہ اسمبلی میں حزب اختلاف کے ڈپٹی لیڈر سردار حسین بابک نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبے کو بقایاجات کی ادائیگی شہباز شریف کی حکومت کے دوران نہیں بلکہ عمران خان کی حکومت کے وقت سے نہیں ہورہی ہے ۔
SEE ALSO: وفاقی حکومت کی تبدیلی، مستقبل میں خیبر پختونخوا اور مرکز میں تلخیاں بڑھنے کا اندیشہان کے بقول کبھی بھی خیبر پختونخواہ حکومت نے عمران خان کی حکومت میں ان بقایاجات کے حصول کے لیے کوشش نہیں کی تھی ۔ تاہم عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد جب بھی صوبائی حکومت نے مرکز کے ساتھ بقایاجات کی ادائیگی کے لیےوفد تشکیل دینے اور اسلام آباد جانے کا ارادہ کیا ہے تو حزب اختلاف نے حمایت کی ہے مگر سیاسی بنیادوں پر صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔
بابک نے کہا کہ صوبے کو واجب الادا بقایاجات کے حصول کے لیے قومی مالیاتی کمیشن اور قومی مفادات کونسل جیسے اداروں کا اجلاس بلا نا چاہے کیونکہ بقایاجات کی عدم ادائیگی سے صوبے کے ترقیاتی معاشی اور دیگر منصوبوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور معاشی تجزیہ کار مہتاب حیدر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں خیبرپختونخواہ حکومت کو وفاقی حکومت سے بقایاجات کی عدم ادائیگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئینی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے قومی مالیاتی کمیشن جیسے اداروں کے اجلاس بلانے چاہئیں جو ان کے بقول نہیں بلائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی خالص آمدنی کا مسئلہ اے جی این قاضی فارمولے میں طے ہوا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ صوبے میں ضم ہونے والے اضلاع کی ترقی کے لیے وفاق اور چاروں صوبوں نے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں ایک فیصد رقم دس سال تک دینے کا وعدہ کیا تھا جس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ تمام مسائل اور شکایات قومی مالیاتی کمیشن اور مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاسوں میں حل ہو سکتی ہیں۔
خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلٰی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے خیبرپختونخوا کے بقایاجات کی عدم ادائیگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے صوبے کے معاشی اور ترقیاتی شعبوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تاہم بیرسٹر سیف نے حزب اختلاف کے رہنما سردار حسین بابک کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا کہ بقایاجات کی ادائیگی کے سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک جیسی پالیسی اختیار کی ہے۔
پشاور کے سینئر صحافی عرفان خان نے بتایا کہ پچھلے دو تین مہینوں سے سرکاری ملازمین کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہورہی ہے جب کہ سرکاری تعمیرات کرنے والے ٹھیکیداروں کی تنظیم کے صوبائی صدر غلام حبیب خان نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران ٹھیکیداروں کو ادائیگی نہ کرنے کی شکایت کی تھی۔