امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں ایک عراقی پناہ گزین کے گزشتہ ہفتے ہونے والے قتل کا عقدہ تاحال نہیں سلجھ سکا ہے جس کے باعث ریاست کی مسلمان آبادی میں تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔
احمد الجمیلی نامی 36 سالہ عراقی شہری کو گزشتہ بدھ کی رات ٹیکساس کے شہر ڈالس میں ان کے گھر کی دہلیز پر فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔
الجمیلی اپنی موت سے چند روز قبل ہی امریکہ منتقل ہوئے تھے اور اپنے قتل کی رات وہ اہلیہ اور سالے کے ہمراہ امریکہ میں اپنی پہلی برف باری کا نظارہ کرنے سے گھر سے باہر آئے تھے جب قاتلوں کی گولی کا نشانہ بنے۔
رواں ہفتے پولیس کی جانب سے جاری کی جانے والی واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں فائرنگ کے بعد جائے واقعہ سے چار افراد کو فرار ہوتے دیکھا جاسکتا ہے جب کہ الجمیلی کی اہلیہ مدد کے لیے پکار رہی ہیں۔
فائرنگ سے زخمی الجمیلی کو ایک مقامی اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ چار گھنٹے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کرگئے تھے۔
واردات کو ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود پولیس تاحال قاتلوں کا سراغ نہیں لگا سکی ہے اور نہ ہی قتل کے محرکات جان پائی ہے۔ تاحال یہ بھی واضح نہیں کہ آیا قاتل الجمیلی کو ہی نشانہ بنانا چاہتے تھے یا وہ غلطی سے ملزمان کا نشانہ بن گئے۔
متاثرہ خاندان کا کہناہے کہ ان کا کسی سے جھگڑا نہیں اور اس سے قبل انہیں کسی ناخوشگوار واقعے کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
امریکی مسلمانوں کی ایک تنظیم 'کونسل آن امریکن –اسلامک ریلیشن' کی ایک مقامی عہدیدار عالیہ سلیم کے مطابق الجمیلی کے اہلِ خانہ متذبذب ہیں کہ آیا انہیں ان کے عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا یا حملہ آوروں کا کوئی اور مقصد تھا۔
عینی شاہدین نے پولیس کو بتایا ہے کہ جس وقت الجمیلی پر فائرنگ کی گئی اس وقت ان کی اہلیہ حجاب پہنے ہوئے تھیں جس سے ان کی اسلامی شناخت ظاہر ہورہی تھی۔
ڈالس پولیس کے ایک عہدیدار میجر جیف کاٹنر نے 'لاس اینجلس ٹائمز' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس تاحال اس امکان کو رد کرنے یا اس کی تصدیق کرنے کے قابل نہیں کہ الجمیلی کو ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
لیکن چیپل ہِل میں ایک یونیورسٹی کے تین مسلمان طلبہ کے قتل کے صرف تین ہفتوں بعد ایک اور مسلمان کے قتل نے امریکہ میں آباد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ حکام کی تشویش میں بھی اضافہ کردیا ہے۔
ٹیکساس اور اس کے گرد و نواح میں آباد مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاستی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قتل کے محرکات سے متعلق مسلمان آبادی کے خدشات کا ازالہ کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
علاقے کی ایک مسلمان انجمن نے تحقیقات میں مدد دینے کے لیے سات ہزار ڈالر کا چندہ بھی اکٹھا کیا ہے۔