خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم ضیاءاللہ بنگش نے کہا کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کے بعد تمام سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طالبات کے لئے پردہ لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
تاہم بعض میڈیا چینلز پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اس نوٹیفیکیشن پر شدید نکتہ چینی کے بعد اسے واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
میڈیا ذرائع نے خیبر پختونخوا کے ترجمان شوکت یوسفزئی کے حوالے سے کہا ہے کہ ’طالبات کے لیے چادر لازمی قرار دینے کا اعلان ایک انفرادی فیصلہ ہے جسے واپس لیا جارہا ہے‘۔
اس سے قبل ضیاء اللہ بنگش نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلے میں تمام اضلاع کے ایجوکیشن افسران کو باقاعدہ تحریری ہدایات دی گئی ہے کہ وہ تمام اسکولوں کی انتظامیہ کو اس فیصلے سے اگاہ کر دیں تاکہ طالبات گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر واپسی پر باپردہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد بچیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اور سرکاری اسکولوں میں نظم و نسق قائم رکھنا ہے۔
خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع اور علاقوں میں ضیاءاللہ بنگش کے بقول بچیوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کے بعد صوبائی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے جس کے اچھے نتائج برامد ہوں گے۔
اوباش نوجوانوں کی حوصلہ شکنی
ضیاءاللہ بنگش نے کہا کہ صوبے کے تمام ضلعی پولیس افسران سے بھی کہا گیا ہے کہ سکول لگنے اور چھٹی کے وقت لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے قریب اوباش نوجوان کے کھڑے ہونے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس سلسلے میں ضلعی پولیس افسران کو انہیں منع کرنے اور ان کے خلاف کاروائی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ طالبات کو ہراساں کیے جانے سے بچانے کے لیے محکمہ تعلیم بہت جلد آگاہی کی ایک مہم شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ضیاء اللہ بنگش کا کہنا تھا کہ پردے سے متعلق اس فیصلے میں عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے تاہم چھٹی اور ساتویں سے انٹر کلاسز میں زیر تعلیم بچیوں کو باپردہ ہو کر آنا چاہیے۔
کیا پردے سے ہراساں کیے جانے حوصلہ شکنی ممکن ہے؟
عورت فاونڈیشن خیبرپختونخوا کی سربراہ شبینہ ایاز نے مشیر تعلیم کے اس فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے ہری پور یا دیگر علاقوں میں ہراساں کرنے والے واقعات ختم نہیں ہو سکتے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ہراساں کرنے یا خواتین کے خلاف تشدد کے دیگر واقعات کے پیچھے محرکات اور وجوہات کو ختم کرنے پر توجہ دے۔
اُنہوں نے کہا کہ پابندی لگانے کی بجائے نصاب اور نظام میں مثبت تبدیلیاں لانے، ذرائع ابلاع میں موثر آگاہی مہم چلانے اور بچیوں کو ہراساں کرنے اور ان کے خلاف تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سخت اقدامات سے ہی یہ مسائل حل ہوں گے۔
قانون سازی کے بغیر ممکن ہے؟
ممبر صوبائی اسمبلی اور عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما شگفتہ ملک اور خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم شاہدہ شاہ کا کہنا ہے کہ کیا پردہ کرنے یا برقعہ پہینے سے حکومت اور سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی، اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
شگفتہ ملک نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے اور اس قسم کے فیصلے کا مقصد حکومتی اداروں کو ان ذمہ داریوں سے جان چھڑانا ہے۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ خواتین کےخلاف تشدد کی روک تھام کو یقینی بنائے۔ سزاء اور جزاء کے عمل کو بھی یقینی بنائے۔ جب تک قانون کی عمل داری قائم نہیں ہو گی اور مجرموں کو سزائیں نہیں ملیں گی تو یہ مسائل اس نوعیت کے فیصلوں سے حل نہیں ہوں گے۔
شاہدہ شاہ نے کہا کہ پردہ کرانا یا نہ کرانا والدین کی ذمہ داری ہے نہ کہ حکومت اور اسکو ل انتظامیہ کی۔
شاہدہ شاہ نے کہا کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس طرح کے بہانوں کی بجائے نہ صرف طالبات بلکہ مختلف سرکاری، نیم سرکاری، نجی اداروں اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
والدین کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار
صوبائی حکومت کے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم بچیوں کو عبایا پہن کر آنے کے حکم پر اکثر والدین نے اطمینان کا اظہار کیا لیکن کئی والدین کا خیال ہے کہ ہراساں کرنے کے واقعات صرف طالبات تک ہی محدود نہیں ہیں۔ حکومت کو ایک ایسی پالیسی وضع کرنی چاہیئے جس سے زندگی کے تمام شعبوں کی خواتین کی زندگیاں محفوظ ہو سکیں۔
فریداللہ کا کہنا تھا کہ صوبے میں باپردہ خواتین کو بھی ہراساں کرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ماضی میں اسکولوں، سڑکوں، بازاروں اور رہائشی علاقوں میں پلویس گشت کرتی تھی جس سے ایسے واقعات کم کم ہی ہوتے تھے، اس نظام کو دوبارہ فعال اور مؤثر بنایا جائے۔
محمد آیاز کا کہنا تھا کہ لوگوں میں شعور کی کمی اور معاشی بدحالی بھی مختلف جرائم کو جنم دے رہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ معاشی سیاسی سماجی اور انتظامی مسائل کےحل پر توجہ دے۔
پس منظر
پچھلے چند مہینوں سے خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں مختلف نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم لڑکیوں کو ہراساں کیے جانے اور انہیں اغواء کیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ حکام کا کہناہے کہ سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم بچیوں کی جانب سے سکول چھوڑنے یا تعلیم معطل کرنے کی ایک اہم وجہ بھی ہراساں کرنے کے واقعات بھی ہیں۔
2002 کے انتخابات کے بعد جب چھ مذہبی جماعتوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل نے صوبے میں اقتدار سنبھالا تو اس وقت بھی صوبے کے تمام سرکاری اسکولوں میں پردے کو لازمی قراردینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مگر مخالفت اور اعتراضات کے بعد اُس فیصلے پر عمل ددرآمد نہیں ہوا تھا۔