صوبۂ خیبر پختونخوا کی حکومت نے شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے علاقے خڑ کمر میں گزشتہ سال پیش آنے والے واقعے کے بعد پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی ایم رہنماؤں کے خلاف خڑ کمر مقدمے کی واپسی سے متعلق سرکاری طور پر اب تک کسی بھی وفاقی یا صوبائی وزیر کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ پی ٹی ایم کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے مطابق انہیں بھی ابھی اس بارے میں باقاعدہ طور پر کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
اطلاعات کے مطابق رواں سال مارچ میں حکومت نے بنوں کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کو درخواست دی کہ حکومت یہ مقدمہ واپس لینا چاہتی ہے۔ یہ درخواست بنوں کے ضلعی پراسیکیوٹر افسر اور اور انسداد دہشت گردی کے پراسیکیوٹر کے توسط سے دائر کی گئی تھی۔
سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر یہ کیس ایبٹ آباد میں سنا جا رہا تھا۔
عدالتی عملے کے ایک رُکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر درخواست موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم عدالت نے سماعت کے لیے تاحال کوئی تاریخ مقرر نہیں کی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے علی وزیر نے بتایا کہ جیل میں قید کے دوران اعلیٰ سیکیورٹی عہدے داروں نے کئی مرتبہ پی ٹی ایم رہنماؤں کے خلاف درج اس مقدمے کو واپس لینے سے متعلق بات کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
علی وزیر نے کہا کہ دراصل اس مقدمے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ ان کے بقول تمام زخمی ہونے والے افراد اور مقامی شہریوں نے دورانِ تحقیقات کہا تھا کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کی جس سے مقامی لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال 26 مئی کو اراکینِ قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر اپنے دیگر ساتھیوں سمیت پی ٹی ایم کے دھرنے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے تو انہیں شمالی وزیرستان میں خڑ کمر کے مقام پر ایک چیک پوسٹ پر روکا گیا تھا۔ سیکیورٹی اہلکاروں سے کے بعد ان کو آگے جانے دیا گیا تاہم اسی دوران مبینہ طور پر سیکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ شروع کر دی تھی۔
واقعے سے متعلق سیکیورٹی حکام کا مؤقف ہے کہ پی ٹی ایم کے قافلے میں شامل افراد نے سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی جس پر سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے جوابی فائرنگ کی گئی تھی۔
پی ٹی ایم رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ وہ خڑ کمر کے احتجاجی دھرنے میں شرکت اور اظہار ہمدردی کے لیے جا رہے تھے اور غیر مسلح تھے۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ان پر فائرنگ کی تھی۔
پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے مطابق اس واقعے میں 15 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ واقعے کا مقدمہ محسن داوڑ اور علی وزیر کے خلاف درج کیا گیا تھا جس میں تین افراد کے قتل اور 15 افراد کے زخمی ہونے کی تفصیلات تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین اور زخمیوں کو بعد میں حکومت نے معاوضوں کی ادائیگی بھی کی تھی۔
فائرنگ کے دوران رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر معمولی زخمی ہوئے تھے۔ سیکیورٹی فورسز نے انہیں ان کے ساتھیوں سمیت حراست میں لے لیا تھا جب کہ محسن داوڑ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
بعد ازاں محسن داوڑ نے ازخود اپنے آپ کو بنوں کی ایک عدالت میں قانون کے حوالے کیا تھا۔
اس جھڑپ کے بعد شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی شہر میران شاہ میں قبائلی شہریوں نے کئی روز تک احتجاجی دھرنا دیا تھا جب کہ پی ٹی ایم کی اپیل پر ملک بھر کے اہم شہروں اور بیرون ممالک میں بھی مظاہرے کیے گئے تھے۔
گرفتاری کے بعد محسن داوڑ، علی وزیر اور دیگر رہنماؤں کو پہلے پشاور اور بعد میں ہری پور جیل منتقل کیا گیا تھا اور انہیں پولیس کی بکتر بند گاڑیوں میں بنوں کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے لیے لایا جاتا تھا۔
بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے دونوں اراکینِ قومی اسمبلی سمیت پی ٹی ایم کے دیگر کارکنوں کی ضمانتوں پر رہائی کا حکم دیا تھا۔
گزشتہ ماہ حکومت نے وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے مقدمے کی واپسی اسی مذاکراتی عمل کی ایک کڑی ہے۔