پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کئے جانے والے دیگر بلوں کے ساتھ پاکستان میں مقید مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے سلسلے میں ایک بل منظور کیا گیا۔ اس پر پاکستان میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔
اس قانون سازی کے حوالے سے ممتاز ماہر قانون، سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین، بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ جب کلبھوشن کو گرفتار کیا گیا تھا تو انھیں کونسل تک رسائی نہیں دی گئی تھی، یعنی ان کے ملک بھارت کے سفارت کاروں یا قانونی ماہرین سے انھیں ملنے نہیں دیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اس بنیاد پر بھارت بین الاقوامی عدالت انصاف میں گیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق ایسی صورت میں ملزم تک اس کے ملک کے سفارت کاروں یا قانونی ماہرین کی رسائی کو لازمی قرار دیا گیا ہے، اور چونکہ پاکستان نے یہ رسائی نہیں دی، اس لئے ان کے لئے تجویز کردہ سزا ختم کی جائے۔
بقول بیرسٹر ظفر علی، ''عالمی عدالت انصاف نے سزا تو ختم نہیں کی اور وہ کر بھی نہیں سکتی تھی، کیونکہ پاکستان یا کسی بھی خودمختار ملک کی کسی بھی عدالت کے فیصلے کو ختم کرنا اس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ لیکن، عدالت نے اتنا ضرور کہا کہ پاکستان نے اگر انھیں 'کونسل ایکسیس' نہیں دی تو انھیں ایسی قانون سازی کرنی چاہئیے کہ انھیں یہ رسائی حاصل ہو''۔
SEE ALSO: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: انتخابی اصلاحات ترمیمی بل منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ اور عدالتوں میں جانے کا اعلان SEE ALSO: کلبھوشن کے حوالے سے خصوصی قانون سازی، حزب اختلاف کا احتجاجانھوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں اپنی بین الاقوامی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے یہ قانون سازی کی گئی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ ایک سادہ سا مسئلہ ہے، جسے درست طریقے سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے اور اس کی ایک وجہ تو غالباً یہ ہے کہ اس قانون کو جو نام دیا گیا اس سے یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف کے حکم یا دباؤ کے تحت یہ قانون سازی کر رہا ہے اور اپنے اقتدار اعلیٰ پر سمجھوتہ کر رہا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس عدالت کا کوئی حکم پاکستان پر لاگو نہیں ہو سکتا۔
دوسرے، انہوں نے کہا کہ غلط فہمی کا ایک اور سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قانون کے مسودے میں زبان و بیان کی کچھ خامیاں بھی ہیں جن کو لوگ سمجھ نہی پا رہے ہیں، حالانکہ اسے سادہ انداز میں بیان کیا جا سکتا تھا اور ان غلطیوں کو آگے چل کر درست کر لیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عالمی عدالت میں سماعت کے دوران یہی موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان رسائی دینے کے لئے تیار تھا جسے قبول نہیں کیا گیا۔ لیکن، عالمی عدالت نے پاکستانی موقف قبول نہیں کیا اور کہا کہ رسائی کے لئے جو شرائط ہیں وہ پوری نہیں کی گئیں، اس لئے پاکستان کو نئی قانون سازی کرنی چاہئیے جو کہ اب کی گئی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے ایک ممتاز ماہر قانون، محمد اویس انور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ قانون پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن ملک کی حیثیت سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے منظور کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ تصور درست نہیں کہ اس سے کلبھوشن کو کوئی اضافی فائدہ پہنچے گا یا پاکستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کو مانتے ہوئے اپنے اقتدار اعلیٰ پر کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔
محمد ادریس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پہلے اس سلسلے میں آرڈی نینس پاس کیا تھا جو چار مہینوں کے لئے ہوتا ہے۔ پھر اس میں ایک بار توسیع بھی کی گئی اور اسے رسائی دی گئی اور پاکستانی وکلاء اس کا مقدمہ لڑنے کے لئے تیار بھی ہیں۔ لیکن بھارت چاہتا ہے کہ وہاں سے وکلاء آ کر ان کا مقدمہ لڑیں۔
لیکن، انہوں نے کہا کہ جیسے بھارت میں بار کونسل کے ضوابط کے مطابق کوئی پاکستانی وکیل وہاں لائسنس کی شرائط پوری کئے بغیر مقدمہ نہیں لڑ سکتا اسی طرح پاکستان میں بھی کوئی باہر کا وکیل مقدمہ نہیں لڑ سکتا۔ اور یہ کہ اسی کشمکش میں آرڈی نینس کی چار چار مہینے کی دو مدتیں گزر گئیں اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔
بقول ان کے، اسی لئے یہ قانون سازی ضروری ہو گئی تھی اور اس طرح پاکستان نے اپنی بین الاقوامی ذمہ داری پوری کی ہے۔