ایک معروف شیعہ عالم کی سزائے موت کے بعد سعودی عرب اور ایران میں تازہ کشیدگی بدستور برقرار ہے اور منگل کو کویت نے بھی تہران سے اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس سے قبل سعودی عرب، ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرچکا ہے اور اس کی تقلید کرتے ہوئے بحرین اور سوڈان نے بھی ایسا ہی کیا جب کہ متحدہ عرب امارت نے اپنے سفارتی تعلقات کو محدود کردیا ہے۔
منگل کو کویت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے سفیر واپس بلائے جانے کی مزید تفصیل فراہم نہیں کی اور نہ ہی بتایا کہ اس سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کس حد تک متاثر ہوں گے۔
دریں اثناء ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب تہران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر کے شیعہ عالم کو سزائے موت دینے کے "اپنے جرم" پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق یہ بات انھوں نے منگل کو تہران میں ڈنمارک کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے موقع پر کہی۔
گزشتہ ہفتے سعودی عرب نے حکومت کے ناقد شیعہ عالم شیخ نمر النمر سمیت 47 مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا تھا جس پر اس کے روایتی حریف ایران نے سخت ردعمل کا اظہار کیا جب کہ تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارتخانے پر حملہ کرتے ہوئے وہاں جلاؤ گھیراؤ بھی کیا۔
اس ساری صورتحال کے باعث خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور سفارتی تناؤ پیدا ہو گیا ہے جسے کم کرنے کے لیے امریکہ سمیت عالمی برادری دونوں ملکوں پر افہام و تفہیم سے کام لینے کا کہہ رہی ہے۔
منگل کو ریاض کے دورے پر موجود مصر کے وزیر خارجہ شامح شکری نے تہران میں سعودی سفارتخانے پر حملے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ شیخ نمر کی سزائے موت پر ایران کا ردعمل "سعودی عرب کے داخلی معاملات میں مداخلت" کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجود صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے بلائے گئے عرب لیگ کے اجلاس میں سعودی عرب کی حمایت کرنے کے اپنے ملک کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
ادھر ترکی نے سعودی عرب اور ایران پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے کام لینے اور سفارتی آداب کو ملحوظ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزارت خارجہ کی طرف سے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ " ترکی دھمکیوں کو ختم کرنے اور سفارتی زبان (میں بات کرنے) کا مطالبہ کرتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ نے پیر کو سعودی ناظم الامور کو طلب کر کے موت کی سزاؤں کے خلاف اپنے موقف کا اعادہ کیا تھا۔