کرغزستان میں آئین تبدیل کرنے کے لیے ریفرنڈم

وسط ایشیائی ریاست کرغزستان میں سیاسی بحران اوررواں ماہ ہونے والے ہلاکت خیز نسلی فسادات کے باوجود اتوار کو آئین میں تبدیلی کے لیے ریفرنڈم میں بظاہر بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے۔

اس ریفرنڈم کا مقصد آئین میں بنیادی تبدیلیوں کے لیے لوگوں کی حمایت حاصل کرنا ہے تاکہ صدارتی اختیارات کو ایک منتخب پارلیمان کو منتقل کیا جائے۔ اس عمل سے ملک میں اکتوبر میں عام انتخابات کے لیے راہ ہموار ہو گی اور کرغزستان کی عبوری حکومت کو بین الاقوامی برادری کی سفارتی حمایت بھی حاصل ہو گی۔

اِس موقع پر دارالحکومت بشکک، جنوبی شہر اوش اور جلال آباد میں سخت حفاظتی اقداما ت کیے گئے جہاں کرغز اور اقلیتی اُزبک برادری کے درمیان 10 جون کو شروع ہونے والے نسلی فسادات میں حکام کے مطابق 275 افرا د ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم کچھ حکام کے خیال میں مرنے والوں کی تعداد کم از کم دو ہزار ہے۔
ُ
ملک کی خاتون عبُوری سربراہ روزا اُتانبائیوا نے تشدد کے حالیہ واقعات کے پیشِ نظر ریفرنڈم ملتوی کرنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔ اُنھوں نے 7 اپریل کو ایک خونریز بغاوت کے ذریعے صدر کُرمان بک بکایف کو برطرف کر کے اقتدار سنبھالا تھا۔ معزول صدر اِن دنوں بِلا روس میں مقیم ہیں۔

مس اُتانبائیوا نے جنوبی شہر اوش کی یونیورسٹی میں جا کر اپنا ووٹ ڈالا۔ روس اور امریکہ نے ریفرنڈم کی حمایت کی ہے جس کے حتمی نتائج پیر کو متوقع ہیں۔

ریفرنڈم کے تحت اُتانبائیوا 2011 تک ملک کی عبوری صدر ہو نگی، عام انتخابات ہر پانچ سال بعد منعقد کیے جائیں گے اور ملک کے صدر کے عہدے کی مدت چھ سال رکھی گئی ہے۔

عُبوری کرغز حکومت نے سابق صدر پر ملک میں نسلی فسادات کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے کیونکہ اوش اور جلال آباد شہر اُن کے مضبوط گڑھ مانے جاتے ہیں۔

نیویارک میں قائم بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ریفرنڈم کرانے کا حکومت کا فیصلہ ملک میں مزید نسلی فسادات کا باعث بن سکتا ہے۔ تنظیم نے کرغزستان میں ہونے والے اُزبک کرغز فسادات کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ یہ قتل وغارت ایک انتہائی منظم انداز سے کی گئی۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اقلیتی اُزبک برادری کی اکثریت نے ریفرنڈم پر عدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ عبُوری حکومت کی سربراہی میں منعقد ہونے والا یہ عمل شفاف اور غیرجانبدار ہوگا۔