لیبارٹری میں انسانی ایمبریو بنانے میں کامیابی نے نئے خدشات پیدا کر دیے

لیبارٹری میں انسانی اسٹیم سیل سے ایمبریو تیار کیا جا رہا ہے۔

دنیا کی مختلف تجربہ گاہوں میں انسانی خلیوں پر تحقیق کرنے والے سائنس دان اسٹیم سیلز کی مدد سے انسانی ایمبریو بنانے کی قریب پہنچ گئے ہیں، جس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے مستقبل میں کئی اخلاقی اور قانونی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں ۔ جس سے بچنے کے لیے نہ صرف احتیاط کی ضرورت ہے بلکہ اس سلسلے میں راہنما اصول بھی مقرر کیے جانے چاہیئں۔

سائنسی اصطلاح میں ایمبریو ایک ایسی بنیادی چیز کو کہتے ہیں جو نشوونما پا کر زندگی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ انسان سمیت حیات کی تمام اقسام کی بنیاد، جس میں نباتات بھی شامل ہیں، ایمبریو ہے۔

قدرتی طور پر ایمبریو ، نر اور مادہ کے ملاپ سے تشکیل پاتا ہے، لیکن اب سائنس دانوں نے اسے اسٹیم سیل سے بنانے میں کچھ کامیابی حاصل کر لی ہے۔

اسٹیم سیل ان خلیوں کو کہتے ہیں جو مختلف انسانی اعضا بنانے کا کام کرتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اسٹیم سیلز کی مدد سے انسانی اعضا میں موجود پیدائشی نقائص اور خامیوں کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ تاہم ابھی یہ تحقیق اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔

برطانیہ کی ایک لیبارٹری میں اسٹیم سیل پر تحقیق ہو رہی ہے۔

یوں تو دنیا کے اکثر ملکوں میں برسوں سے لیبارٹری کی مدد سے انسانی بچے کی پیدائش کی جا رہی ہے لیکن اس کے لیے مرد اور عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے بچے کو عموماً ٹیسٹ ٹیوب بے بی کہا جاتا ہے۔ لیکن اسٹیم سیل سے انسانی ایمبریو بنانے کے لیے صرف اسٹیم سیل درکار ہوتا ہے جو خون سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جدید سائنس کے اس شعبے میں پیش رفت کئی طرح کے مسائل اور معاشرتی پیچیدگیوں کو جنم دے سکتی ہے۔

ایمبریو کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ حمل ٹہرنے کے بعد خلیوں کی تعمیر اور مختلف حصوں میں ان کی تقسیم کے عمل کا آغاز ہو تا ہے۔جس سے ایک وجود بننا شروع ہو جاتاہے جسے ایمبریو کہا جاتا ہے۔ تقریباً سات ہفتوں میں سر سے پاؤں تک اس وجود کی لمبائی 10 ملی میٹر تک پہنچ جاتی ہے۔ آٹھویں ہفتے میں ایمبریو کو جنین کا نام دے دیا جاتا ہے۔

سائنس دانوں نے مختلف لیبارٹریز میں اسٹیم سیل سے ایمبریو بنانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے ، جن کا مقصد حمل کے دوران جنین میں پیدا ہونے والے نقائص اور جینیاتی بیماریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔

حال ہی میں بوسٹن میں انٹرنیشنل سوسائٹی فار اسٹیم سیل ریسرچ کی سالانہ کانفرنس میں دنیا بھر میں اسٹیم سیل پر کام کرنے والے سائنس دانوں نے اپنی تحقیق پیش کی، جن میں کیمرج یونیورسٹی، کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، اسرائیل کے وائز مان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، اور چین اور امریکہ کی کئی سائنسی لیبارٹریز شامل ہیں۔

جرمنی کی بون یونیورسٹی میں اسٹیم سیل پر تحقیق ۔ فائل فوٹو

گزشتہ سال اگست میں سائنس دانوں نے کانفرنس میں چوہوں کے اسٹیم سیلز کی مدد سے تیار کیے جانے والے ایمبریو پر اپنی تحقیقات پیش کیں تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کانفرنس میں پیش کیے جانے والے تحقیقی ماڈلز پہلے کی نسبت زیادہ بہتر ہیں جنہیں سائنس دان اپنی تحقیق کے تبادلوں سے زیادہ بہتر بنا سکتے ہیں۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں اسٹیم سیل بائیولوجی کے ایک ماہر ڈیریوس وائنڈر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی پیش رفت کو بہت زیادہ نمایاں کرنے سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیں نئی گائیڈ لائنز کی ضرورت ہے۔

اس وقت دنیا کے مختلف ملکوں میں ایمبریو اور جنین پر تحقیق کے لیے مختلف ضوابط نافذ ہیں ، مگر یہ ضوابط قدرتی طریقے سے پیدا کیے جانے والے ایمبریو اور جنین کے لیے ہیں، جب کہ اسٹیم سیل سے بنائے جانے والے ایمبریو ان ضوابط پر پورے نہیں اترتے اور ان کے لیے نئے قواعد درکار ہیں۔

اسرائیل کے وائزمان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں ڈاکر جیکب ہنا اسٹیم سیل پر تحقیق کر رہے ہیں۔

کانفرنس میں شامل سائنس دانوں نے واضح کیا کہ ان کا اسٹیم سیل سے بنائے جانے والے ایمبریو کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی طرح انسانی رحم میں رکھ کر اس سے بچہ پیدا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ اسٹیم سیل سے بننے والے ایمبریو میں زندگی نہیں ہوتی اور اس سے بچہ پیدا نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن برطانیہ کے فرانسس کرک انسٹی ٹیوٹ کے ایک سائنس دان جیمز بریسکو کہتے ہیں کہ اس شعبے میں ہونے والی تحقیق کو انتہائی احتیاط اور شفافیت کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ غلط اقدامات اور غیر حقیقی دعوے عوام اور پالیسی سازوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں جس سے اس شعبے میں پیش رفت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

(اس مضمون کے لیے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)