|
نئی دہلی — بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر گشت کے سلسلے میں ایک معاہدہ ہوا ہے جسے فریقین کے درمیان چار سال سے جاری سرحدی و فوجی کشیدگی کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بھارت نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر گشت کے سلسلے میں چین کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا ہے۔ منگل کو بیجنگ نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کی ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ متعلقہ امور پر سمجھوتہ ہو گیا ہے اور وہ معاہدے کے نفاذ کے سلسلے میں نئی دہلی کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ تاہم فریقین میں سے کسی نے معاہدے کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔
مبصرین کے مطابق اس معاہدے کے بعد 22 اور 23 اکتوبر کو روس کے شہر کزان میں 'برکس' رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
سفارتی حلقوں میں اس امید کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ نریندر مودی اور شی جن پنگ کی متوقع ملاقات کے دوران سرحدی کشیدگی کو کم کرنے اور ایل اے سی پر فوجی تعطل کو ختم کرنے سے متعلق ممکنہ اقدامات کی تفصیلات سامنے آ سکتی ہیں۔
SEE ALSO: مشرقِ وسطیٰ میں بڑی جنگ ہوئی تو بھارت کا کیا مؤقف ہو گا؟بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے پیر کو ایک میڈیا بریفنگ میں وزیرِ اعظم کے دورۂ روس کی تفصیلات بتانے کے دوران مذکورہ معاہدے کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ کئی ہفتوں کے دوران سفارتی اور فوجی چینلز سے ہونے والے متعدد ادوار کے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اب فریقین اگلے قدم کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لین جیان نے ایک پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں چین اور بھارت سرحد سے متعلق امور پر سفارتی اور فوجی چینلوں کے توسط سے ایک دوسرے کے قریبی رابطے میں رہے ہیں۔ فریقین متعلقہ امور پر ایک سمجھوتے پر پہنچ گئے ہیں۔
دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی ممکنہ ملاقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ اگر کوئی چیز سامنے آتی ہے تو اس سے مطلع کیا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق اس معاہدے کے بعد مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر واقع دو متنازع مقامات دیپسانگ اور ڈیمچوک پر گشت شروع ہو جائے گا۔ وکرم مسری کے مطابق 2020 کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات کے حل اور افواج کی واپسی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ مئی 2020 میں وادی گلوان میں پینگانگ جھیل کے ساحل پر دونوں ملکوں کے فوجیوں میں خونی ٹکراؤ ہوا تھا جس میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد فریقین کے تعلقات 1962 کے بعد سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے اس معاہدے کو ایک اچھا اور مثبت قدم قرار دیا ہے۔
نئی دہلی میں منعقدہ ’این ڈی ٹی وی ورلڈ سمٹ‘ سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم گشت کے سلسلے میں ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔ اب ہم 2020 کی صورت حال پر واپس لوٹ جائیں گے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب چین کے ساتھ افواج کی واپسی کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن بھارت کو چین کے عزائم کے بارے میں چوکنا رہنا ہوگا۔
'ایل اے سی پر تعینات افواج پر دباؤ کم ہوگا'
سینئر دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کہتے ہیں کہ یہ ایک اچھا اور مثبت قدم ہے۔ فی الحال کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے یہی ہو سکتا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایسی رپورٹس ہیں کہ 23 اکتوبر کو مودی، پوٹن اور شی جن پنگ کی سہ فریقی ملاقات ہوگی۔ لہٰذا اعتماد کی بحالی کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
ان کے بقول اس معاہدے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ایل اے سی پر جو فوجیں تعینات ہیں ان پر دباؤ کم ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایل اے سی پر کشیدگی کم ہوگی اور دونوں ملکوں کی فوج کو راحت ملے گی۔
واضح رہے کہ ایل اے سی پر دونوں جانب سے 60-60 ہزار فوجی تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ فریقین نے وہاں بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر کی ہے اور جدید ترین ہتھیار اور آلات نصب کیے ہیں۔
SEE ALSO: اروناچل پردیش میں بجلی گھروں کا منصوبہ، بھارت چین کشیدگی بڑھنے کا امکان کیوں؟تجزیہ کاروں کے مطابق افواج کے ایک دوسرے کے بالمقابل ہونے سے کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔
پروین ساہنی کہتے ہیں کہ ابھی اس بات کا امکان کم ہے کہ وہاں تعینات فوجیں واپس ہوں گی۔
ان کے بقول بعض اوقات جب ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں ہوتا تو یہ خدشہ رہتا ہے کہ دشمن ملک کی فوجیں ہمارے علاقے میں نہ گھس جائیں۔ اس صورت میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اب اس کی ضرورت نہیں ہو گی۔
ان کے مطابق جب اعتماد بحال ہو جائے گا تو کوئی بھی قدم اٹھایا جا سکے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فوجیوں کی واپسی ہو جائے۔ یہ سب کمانڈرز کے اوپر منحصر ہوتا ہے۔ اب چوں کہ دونوں ملکوں میں معاہدہ ہو گیا ہے اس لیے اب کسی ٹکراؤ کا خطرہ نہیں ہے۔
'گشت کے آغاز کے ساتھ ہی اعتماد کی بحالی ہو جائے گی'
بھارت کے آرمی چیف جنرل اوپیندر دیویدی کا کہنا ہے کہ 2020 کی صورت حال کے واپس آجانے کے بعد بھارت ایل اے سی پر کشیدگی میں کمی اور فوجیوں کی واپسی پر غور کرے گا۔
بھارتی نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ دیکھنا ضروری اور اہم ہے کہ جو بفر زون بنائے گئے ہیں ان پر ناجائز قبضہ نہ ہو۔
انہوں نے معاہدے کے اعلان کے بعد اپنے پہلے ردِعمل میں کہا کہ ہم اپریل 2020 کے اسٹیٹس کو پر واپس جانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق گشت کے آغاز کے ساتھ ہی اعتماد کی بحالی ہو جائے گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس قدم کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
پروین ساہنی کہتے ہیں کہ صورتِ حال کے بہت زیادہ خراب ہو جانے کے بعد حالات یک بیک معمول پر نہیں آتے۔ اس کے لیے راستہ نکالنا پڑتا ہے اور دھیرے دھیرے آگے بڑھنا ہوتا ہے جس کا سلسلہ اب شروع ہو چکا ہے۔
ان کے بقول کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات رہے ہیں جب کہ تجارتی تعلقات بھی بڑھ رہے ہیں۔ البتہ جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ اب اٹھائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان معطل ہو جانے والی براہِ راست پروازوں کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتوں کی سطح پر بھی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
'نئے معاہدے کے بارے میں وقت بتائے گا'
نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' پر ہونے والے ایک مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے سینئر دفاعی تجزیہ کار برہما چیلانی کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ چین کے ساتھ کشیدگی کو ختم کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ لیکن بھارت کو اسے کسی اہم پیش رفت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔
SEE ALSO: جنوبی بحیرہ چین میں تیرتے ہوئے چینی جوہری بجلی گھروں کے منصوبے سے کیا خطرات ہیں؟ان کے بقول یہ بات سمجھنا ہوگی کہ چین نے دیپسانگ اور ڈیمچوک میں بھارت کی جس زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے وہاں سے وہ واپس نہیں جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو نیا گشتی معاہدہ ہوا ہے اس کے بارے میں صرف وقت بتائے گا۔ کیوں کہ اس کی تفصیلات رفتہ رفتہ سامنے آئیں گی۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ بفر زون سمجھوتے کی تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے آئی تھیں۔
برہما چیلانی نے مزید کہا کہ تین باتوں کے ہونے کی ضرورت ہے جن میں فوجوں کی واپسی، کشیدگی میں کمی اور مزید فوجیوں کی عدم تعیناتی شامل ہے۔ بھارت کی جانب سے جو اعلان کیا گیا ہے وہ صرف فوجوں کی واپسی سے متعلق ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دوسرا اور تیسرا مرحلہ بہت مشکل ہوگا کیوں کہ چین نے بھارتی سرحد سے متصل جنگی ضرورتوں سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی مستقل تعمیرات کی ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل سید عطا حسنین (ر) کہتے ہیں کہ گزشتہ چار برس کے دوران بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر اور فوجیوں کی تعیناتی کے بارے میں بہت کچھ ہو چکا ہے۔ ایک مفصل اور مناسب معاہدے کے بغیر ان چیزوں کو راتوں رات واپس لینا ممکن نہیں۔
ان کے بقول کشیدگی لمحے بھر میں ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا خاتمہ برسوں میں جا کر ہوتا ہے۔