اگر آپ سے کہا جائے کہ کسی بارودی سرنگ پر سے گزر جائیں تو کیا آپ ایسا کر لیں گے؟ یقیناً نہیں، کیونکہ ہم سب کو اپنی جان پیاری ہے۔ مگر لیڈی ڈیانا نے اپنی زندگی میں ایسا ایک بار نہیں دو بار کیا۔
یہ 15 جنوری 1997 کی بات ہے جب وہ انگولا میں بارودی سرنگیں ہٹانے والے ہیلو ٹرسٹ کی مہمان بنیں۔ انگولا میں 27 سال سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے ملک کے گلی، محلے، دیہات بارودی سرنگوں سے اٹے پڑے تھے۔
خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد بھی ان بارودی سرنگوں کی موجودگی معصوم جانوں کے نقصان اور معذوری کا باعث بن رہی تھی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بارودی سرنگوں کی تباہ کاریوں کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لئے ڈیانا چہرے پہ پلاسٹک شیلڈ اور جسم پر ایک ہلکی حفاظتی جیکٹ پہنے انتہائی محتاط طریقے سے بارودی سرنگوں کے درمیان ایک تنگ راستے سے گزریں۔ گو کہ یہ راستہ صاف کر دیا گیا تھا مگر صرف ایک غلط قدم ان کی جان خطرے میں ڈال سکتا تھا۔
ڈیانا جب واپس پلٹیں تو انہیں احساس ہوا کہ کچھ نیوز فوٹوگرافرز ان کی تصاویر کھینچنے میں ناکام رہ گئے۔ بس پھر کیا تھا، وہ ایک بار پھر اس پر خطر راستے پر چل پڑیں۔
SEE ALSO: لیڈی ڈیانا کو 'دھوکے سے' متنازع انٹرویو پر راضی کرنے والے صحافی نے معافی مانگ لیایسی ہی بہادر تھیں لاکھوں دلوں پر راج کرنے والی ڈیانا جن کے مداحوں کے دلوں میں ان کی یادیں ان کے 60 ویں یوم پیدائش کے موقع پر پھر تازہ ہو گئی ہیں۔
انگولا کے اس دورے میں انہوں نے بارودی سرنگوں سے متاثرہ کئی لوگوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ ان کی یہ تصاویر دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں آج بارودی سرنگوں پر پابندی کے معاہدے پر 164 ملکوں کے دستخط موجود ہیں۔
چھوٹے بچوں کے اسکول کی ٹیچر سے اک باغی شہزادی بننے والی ڈیانا کی پیچیدہ زندگی اور شاہی روایات سے انحراف نے ونڈسر خاندان پر دیرپا اثرات چھوڑے۔ شاہی خاندان سے ہونے کے باوجود عوامی طرز زندگی اپنانا ہی شاید وہ ادا تھی جو عوام کے دلوں میں گھر کر گئی۔
اے پی سے بات کرتے ہوئے ہیلو ٹرسٹ کے موجودہ سربراہ جیمس کوون کہتے ہیں کہ ‘ڈیانا کے پاس جذباتی ذہانت تھی جس کی وجہ سے نہ صرف وہ تصویر کو تمام زاویوں سے دیکھ سکتی تھیں بلکہ اسی بنیاد پر وہ انسانوں سے خود کو جوڑ بھی لیتی تھیں۔ انہیں معلوم تھا جہاں دوسرے لوگ صرف عوام کے دماغ تک پہنچ پاتے ہیں وہ لوگوں کے دل میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں’۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیرس کار حادثہ میں اپنی موت سے سات ماہ قبل انگولا کی بارودی سرنگوں میں اترنے کا واقعہ ایسی بہت سے مثالوں میں سے ایک ہے جس کے ذریعے انہوں نے شاہی خاندان کی عوام تک رسائی ممکن بنائی۔
مثال کے طور پر بچوں سے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کے بات کرنا، مریضوں سے ان کے بستر پر بیٹھ کر خیریت دریافت کرنا، مداحوں کو اپنے ہاتھ سے خطوط لکھنا۔ عوام سے ان کی قربت کا یہ خصوصی انداز شاہی خاندان کے دیگر افراد کے لئے بھی نمونہ بنا جن میں خود ان کے اپنے بیٹے پرنس ولیم اور پرنس ہیری بھی شامل ہیں۔
ڈیانا کا یہ طرز زندگی اکیسویں صدی میں بادشاہت کے جاری رہنے کو بامقصد رکھنے کے لئے نمونہ عمل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ڈیانا غریب اور نادار لوگوں سے ملنے والی پہلی شخصیت نہیں تھیں۔ 1956 میں ملکہ الزبتھ دوئم بھی نائیجیریا میں جذام کے مریضوں سے مل چکی تھیں مگر ڈیانا تو جیسے واقعی لوگوں کی زندگیوں کو چھو لیتی تھیں۔
‘ڈیانا: خود اپنی تلاش میں’ کی مصنفہ سیلی بیڈیل کہتی ہیں کہ ‘‘شاہی خاندان میں ڈیانا ایک ایسی شخصیت تھیں جنہیں لوگوں کو گلے لگانے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی۔ وہ لوگوں کو چھو کر ان سے بات کر سکتی تھیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو خود ملکہ برطانیہ نہ پہلے کر سکیں نہ آج کرنے کے لئے تیار ہوں گی’۔
ڈیانا کو یہ اندازہ تھا کہ لوگوں سے ان کی یہ قربت بڑی شہ سرخیوں کی زینت بنے گی اور اس سے وہ تمام مقاصد جن کے لئے وہ کام کر رہی تھیں، لوگوں کی توجہ حاصل کر پائیں گے۔
SEE ALSO: لیڈی ڈیانا کے انٹرویو کے لیے جعلی دستاویزات کے استعمال پر بی بی سی کو تنقید کا سامناایڈز کی وبا کے ابتدائی زمانے میں انہوں نے لندن میں ایڈز کے مریض سے ہاتھ ملا کر یہ پیغام دیا کہ یہ چھوت کی بیماری نہیں ہے۔
پرنس چارلز کے ساتھ جب ان کی شادی شدہ زندگی میں بگاڑ پیدا ہوا، تب بھی انہوں نے ایسے ہی استعاروں کی مدد سے اپنی کہانی عوام تک پہنچائی۔ اپنے دونوں بچوں کو پیار سے بھینچ کر اپنی مامتا کا اظہار کرنا، بھارت کے شاہی دورے پر محبت کی علامت تاج محل کے سامنے اکیلے تصویر کھنچوانا، طلاق کے بعد بارودی سرنگ پر چلنا، ان سب میں عوام کے لئے پیغامات موجود تھے۔
ڈیانا پر کتاب لکھنے والی انگرڈ سوورڈ کہتی ہیں کہ ڈیانا کوئی دانشور نہیں تھیں مگر وہ کہانی بتانے اور منظر کشی کی طاقت سمجھتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ انہیں بہترین الفاظ کا چناؤ تو نہیں آتا تھا مگر بہترین تصویر کیا ہے، وہ بخوبی جانتی تھیں۔
اس بات سے ڈیانا کی شادی کا لباس تیار کرنے والی ڈیزائنرز میں سے ایک الزبتھ ایمینئول بھی اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ شادی ایک بیس سالہ لڑکی کا اسکول ٹیچر سے شہزادی بننے کا سفر تھا۔ وہ تخت برطانیہ کے وارث سے رشتہ جوڑ رہی تھیں۔ ان کی شادی سینٹ پالز کتھیڈرل میں ہو رہی تھی۔ ‘ہم نے سوچا شادی کا لباس بھی ایسا ہی شاہانہ اور ڈرامائی ہو، اک ایسا لباس جو اپنے آپ میں ایک مثال ہو اور ڈیانا کو ہماری ہر بات سے اتفاق تھا’۔
مگر ایمینیوئل کا یہ بھی کہنا ہے اس کے ساتھ ساتھ ڈیانا میں سادگی اور انکساری بھی تھی۔ ’ان کی شخصیت میں ایک طرح کی نزاکت یا کمزوری بھی تھی جس میں لوگوں کو اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔ ان کی شخصیت غلطیوں سے مبرا نہیں تھی اور ایک عام انسان بھی بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ان ہی کے خاندان کا فرد ہوں، جیسے وہ انہیں پہلے سے جانتے ہوں’۔
ڈیانا کے بنائے ہوئے راستے کو ان کے بچوں نے بھی چنا۔ شہزادہ ولیم نے مستقل طور پر شاہی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے ائیر ایمبولینس کے پائلٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔
اپنی والدہ کا پیغام آگے بڑھانے کے لئے شہزادہ ہیری بھی ہیلو ٹرسٹ کے ساتھ کام کے دوران انہیں بارودی سرنگوں پہ چلے جن پر ان کی والدہ کئی سال پہلے گزر چکی تھیں۔
ڈیانا کی دیکھا دیکھی عوامی طرز عمل اپنانے کا یہ عمل شاہی خاندان کے دیگر افراد میں بھی نظر آتا ہے۔ پچھلے دنوں ہی شہزادہ ایڈورڈ کے انتقال پر انٹرویو دیتے ہوئے ان کی بہو، کاونٹس آف ویسکس، صوفی کے آنسو چھلک پڑے۔
صرف یہی نہیں عوام کو ملکہ برطانیہ کا بھی نیا رخ اس وقت دیکھنے کو ملا جب وہ 2012 کے لندن اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے لئے بنائی گئی ایک مختصر فلم میں بانڈ گرل کے طور پر نظر آئیں۔
پچھلے سال ملکہ الزبتھ دوئم زوم کال پر اسکول کے بچوں کے ساتھ گفتگو میں قہقہے بکھیرتی ہوئی بھی پائی گئیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دلوں کی ملکہ ڈیانا، ملکہ برطانیہ کو بھی عوام سے ربط بنانے کا طریقہ سکھا گئیں۔