لاھور کےقدیم مکان اورحویلیاں؛ اب محض تصاویر میں

امرت دھارا بلڈنگ

لاھور میں ہزاروں پرانے اور بوسیدہ مکان اور حویلیاں آج بھی موجود ہیں جو فنِ تعمیر کی نادر شاہکار تو ہیں مگر ان کی درستیابی کا کوئی انتظام نہیں

لاھور میں جاری پینٹنگز کی ایک نمائش میں معروف مصور اور نیشنل کالج آف آرٹس کی آرٹ گیلری کے سابق نگران ڈاکٹر اعجاز انور نےبھی اپنے فن پارے رکھے ہیں جو لاہور کی پرانی عمارتوں اور اُن کے فنِ تعمیر کے دلدادہ لوگوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا ہے کہ شہر ِ لاھور، فن تعمیر کے نادر نمونوں سے بھرا پڑا ہے اور یہاں بڑی بڑی تاریخی عمارتوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ایسے مکانات اور حویلیاں وغیرہ ہیں جن کو فنِ تعمیر کے شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔

اُنہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تاریخی اہمیت کی بڑی عمارتوں پر تو توجہ دی جارہی ہے اور وہاں بحالی اور درستیابی کے کام بھی ہور ہے ہیں مگر پرانے مکانوں اور حویلیوں وغیرہ کی شکل میں لاھور میں فنِ تعمیر کے جو نمونے بڑی تعداد میں بکھرے پڑے ہیں اُن کا پرسانِ حال کوئی نہیں ہے اور وہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے زمین بوس ہورہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ خود زیادہ تر ایسی عمارتوں کو پینٹ کرتے ہیں جو بالکل بوسیدہ ہوچکی ہیں تاکہ اگر وہ عمارت نہ رہے تو کم از کم اُس کی ایک پینٹنگ تو موجود رہے جس میں وہ طرز ِ تعمیر بھی کچھ حد تک محفوظ ہوجائے جو ہمارا صدیوں پرانا ورثہ ہے۔

واضح رہے کہ کنہیا لال کی معروف کتاب، تاریخِ لاھور میں جو کہ اُنیسویں صدی کے آخر میں لکھی گئی تھی، لاھور میں پچاس سے زیادہ بڑی حویلیوں اور سینکڑوں کی تعداد میں دیگر چھوٹی حویلیوں اورمکانوں کا ذکر موجود ہے جو اُس دور کے طرزِ تعمیر کی عکاس تھیں تاہم سو برس بعد پاکستان میں اس سلسلہ میں جو سروے کیا گیا تو اسوقت محض چوالیس ایسی حویلیاں گنِی جاسکیں جن کا ذکر کنہیا لال کی تاریخ میں ملتا ہے۔

ڈاکٹر اعجاز انور نے بتایا کہ اب بھی لاھور میں ان نادر عمارتوں کو گرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پرانی عمارتوں کی پینٹنگز پر توجہ کے اپنے شوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز انور نے کہا کہ وہ اٹلی کے شہر روم اور ترکی کے شہر استنبول میں بھی مصوری کرتے رہے ہیں اور ان شہروں میں بھی اُن کی توجہ زیادہ تر ایسی عمارتوں کی طرف ہوتی تھی جن کو آجکل Endangered کہا جاتا ہے یعنی جن کو معدوم ہونے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ لاھور اُن کی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے اور اب تک اس شہر کی ایک سو چونتیس ایسے مکانوں اور حویلیوں کی پینٹنگز بنا چکے ہیں جو انتہائی بوسیدہ تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ان میں سے اب تک کئی گرائی بھی جاچکی ہیں اور اُن کی پینٹنگز کی ایک نمائش کے دوران میں بھارت سے آئے ہوئے کچھ مہمانوں نے اپنے اُن پرانے گھروں کو پہچان بھی لیا تھا جو اب صرف پینٹنگز تک محدود تھے۔ ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا تھا کہ لاھور کے پرانے مکان اور حویلیاں دیکھ کر اُن کو ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں ہوسکتا ہے فن تعمیر کے یہ نادر نمونے محض پینٹنگز تک ہی محدود ہوجائیں۔

لاھور کی عمارتوں کو بہت سے مصور اپنی پینٹنگز کا موضوع بناچکے ہیں اور اس حوالے سے مصوری کے کئی شاہکار بھی موجود ہیں مگر اس خیال سے عمارت کی پینٹنگ بنا لینا کہ فنِ تعمیر کا یہ نمونہ مستقبل کے لیے محفوظ ہوجائے، ڈاکٹر اعجاز انور کا خاص شوق ہے جس کی تازہ ترین مثال ریلوے روڈ لاھور پر واقع امرت دھارا بلڈنگ کی اُن کی پینٹنگ ہے جو آج کل لاھور کی کوآپرا آرٹ گیلری میں جاری نمائش میں بھی رکھی گئی ہے۔

ڈاکٹر اعجاز انور نے بتایا کہ تقسیمِ ہند سے پہلے امرت دھارا کے نام سے معروف دوا بنانے والوں کا، یہ عمارت صدر دفتر تھی جبکہ اب اس کے مختلف حصوں میں کئی خاندان آباد ہیں اور اس عمارت کی دیکھ بھال اُن کے بقول بالکل نہیں ہورہی ہے۔ اُنہوں نے کہا یہ عمارت محض اس لیے کھڑی ہے کہ اس کی بنیادیں مضبوط ہیں اور دیواریں چوڑی ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ آخر یہ مضبوط بنیادیں اور چوڑی دیواریں کب تک ساتھ دیں گی اوراگر صورتحال یہی رہی تو امکان غالب ہے کہ اس عمارت کا طرزِتعمیر بھی اُن کی اس پینٹنگ میں ہی محفوظ رہے گا۔