ملک کی پہلی میٹرو ٹرین کی فیزیبلیٹی رپورٹ کا گہرائی سے جائزہ لینے والے معاشی امور کے ماہر کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ سودمند نہیں ہوگا۔ بقول اُن کے،’اربابِ اختیار کو چاہئے کہ وہ ایک مرتبہ پھر اس منصوبے کا تنقیدی جائزہ لیں اور پھر اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں‘
کراچی —
’زندہ دلان لاہور‘ بہت خوش ہیں کہ ان کے شہر سے میٹرو ٹرین شروع ہو رہی ہے، جبکہ باقی عوام کو بھی اس پر فخر ہے کہ ملک کی پہلی’اورنج لائن میٹروٹرین‘ شروع ہونے والی ہے۔
لیکن، اعداد و شمار کا گہرا تجزیہ کرنے والے معاشی ماہرین اس منصوبے پر شاکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق اس جانب واضح اشارہ کر رہے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل فائدہ مند کم اور نقصان دے زیادہ ہے۔
میٹرو ٹرین منصوبہ چار دن پہلے یعنی 23مئی کو اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنا جب صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے دورہٴچین کے دوران شنگھائی میں ’لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین‘ منصوبے پر عمل درآمد کے لئے باقاعدہ ایک معاہدے پر دستخط کئے گئے۔
منصوبے کے’مبینہ‘ فوائد
صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی معلومات کے مطابق چین کے تعاون سے شروع کئے جانے والے مذکورہ منصوبے کے تحت ملک کی پہلی میٹرو ٹرین لاہور میں چلائی جائے گی جس کے لئے علیحدہ سے ٹریک بچھایا جائے گا۔ ٹرین 27.1کلومیٹر کا سفر طے کرے گی۔ ابتدائی سالوں میں ہر روز ڈھائی لاکھ جبکہ 2025ء تک 5لاکھ مسافر اس سے سفر کر سکیں گے۔ اس منصوبے پر 1.6بلین ڈالر خرچ ہوں گے۔
منصوبہ 27 ماہ میں مکمل ہوگا، جبکہ ٹرین کے اسٹیشنز کی تعداد بھی 27ہی ہوگی یعنی شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک۔ میٹرو ٹرین سروس کو دنیا بھر میں آمد و رفت کا جدید ترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ لہذا، لاہور کے شہریوں کو اس منصوبے سے بہت فائدہ پہنچے گا وہ پر سکون انداز میں بے ہنگم اوربمپر ٹو بمپر جام ٹریفک سے بچتے ہوئے آسانی سے اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکیں گے۔
چین کا تعاون
منصوبے کے لئے چین ناصرف سرمایہ فراہم کرے گا، بلکہ اس کی ڈیزائننگ، تعمیر اور نگرانی کا ذمے دار بھی پاکستان کا دوست ملک چین ہی ہوگا۔ اس کی تعمیر بھی چینی فن تعمیر کے معیار کے مطابق ہوگی۔ سال رواں کے اختتام تک اس منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔
منصوبے سے جڑی مشکلات؟
پنجاب حکومت میٹروٹرین منصوبے پر عوام کو کرائے کی مد میں سبسڈی دے گی یعنی غریب اور عام آدمی بھی اس کا ٹکٹ خرید سکے گا۔ لہذا، اس صورتحال میں یہ منصوبہ عوام دوست بھی ہوگا۔ لیکن۔۔۔ان تمام عوامی سہولیات کے باوجود ملکی خزانے اور صوبائی ذرائع آمدنی پر اس کا اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ بقول ماہرین:
اگر ہم یہ تصور کرکے چلیں کہ ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر کے خرچ سے چلنے والی میٹرو ٹرین میں پہلے ہی دن سے 5لاکھ افراد سفر کریں گے اور ہر مسافر کم از کم 100روپے خرچ کرے گا تو حکومت کو ابتدائی سرمائے (یعنی 1.6بلین ڈالر) کی ریکوری میں تقریباً 9سال لگیں گے ۔یہ امر ناممکن ہے کہ پہلے ہی دن سے 5لاکھ مسافر میٹروٹرین سے سفر کریں اور سال کے 365 دن سفر کریں۔
منصوبے کے تحت مسافر کو رعایتی نرخوں پر ٹرین کا ٹکٹ ملے گا جسے 100روپے فی مسافر بھی تصور کرلیا جائے تو خود حکومت کو یہ سبسڈی کتنی مہنگی پڑے گی، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ خرچ میں ٹرین کی آپریشنل لاگت شامل نہیں ہے یعنی ملازمین اور عملے کی تنخواہیں، روزانہ خرچ ہونے والے ایندھن کی قیمت، ٹرینوں کی مینٹی نینس کا خرچا، اسٹیشن کی دیکھ بھال، صاف ستھرائی، وغیرہ۔
ایک اور مشکل امر یہ بھی ہے کہ مذکورہ تمام اعداد و شمار کی بنیاد امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے میں 100روپے رکھی گئی ہے، جبکہ آنے والے سالوں میں اس میں اضافہ بھی ممکن ہے اور جب ڈالر بڑھتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ بہت ساری چیزیں بڑھ جاتی ہیں۔
اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ منصوبے پر عمل درآمد شروع کرنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر چین کو سرمایہ واپس نہ کرنا پڑے تو ہی اس منصوبے کا قابل عمل بنایا جا سکتا ہے، بصورت دیگر اس کا خرچ برداشت کرنا پاکستان جیسے غریب ملک کے لئے بہت ۔۔بہت۔۔ مشکل ہے۔
لیکن، اعداد و شمار کا گہرا تجزیہ کرنے والے معاشی ماہرین اس منصوبے پر شاکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق اس جانب واضح اشارہ کر رہے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل فائدہ مند کم اور نقصان دے زیادہ ہے۔
میٹرو ٹرین منصوبہ چار دن پہلے یعنی 23مئی کو اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنا جب صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے دورہٴچین کے دوران شنگھائی میں ’لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین‘ منصوبے پر عمل درآمد کے لئے باقاعدہ ایک معاہدے پر دستخط کئے گئے۔
منصوبے کے’مبینہ‘ فوائد
صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی معلومات کے مطابق چین کے تعاون سے شروع کئے جانے والے مذکورہ منصوبے کے تحت ملک کی پہلی میٹرو ٹرین لاہور میں چلائی جائے گی جس کے لئے علیحدہ سے ٹریک بچھایا جائے گا۔ ٹرین 27.1کلومیٹر کا سفر طے کرے گی۔ ابتدائی سالوں میں ہر روز ڈھائی لاکھ جبکہ 2025ء تک 5لاکھ مسافر اس سے سفر کر سکیں گے۔ اس منصوبے پر 1.6بلین ڈالر خرچ ہوں گے۔
منصوبہ 27 ماہ میں مکمل ہوگا، جبکہ ٹرین کے اسٹیشنز کی تعداد بھی 27ہی ہوگی یعنی شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک۔ میٹرو ٹرین سروس کو دنیا بھر میں آمد و رفت کا جدید ترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ لہذا، لاہور کے شہریوں کو اس منصوبے سے بہت فائدہ پہنچے گا وہ پر سکون انداز میں بے ہنگم اوربمپر ٹو بمپر جام ٹریفک سے بچتے ہوئے آسانی سے اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکیں گے۔
چین کا تعاون
منصوبے کے لئے چین ناصرف سرمایہ فراہم کرے گا، بلکہ اس کی ڈیزائننگ، تعمیر اور نگرانی کا ذمے دار بھی پاکستان کا دوست ملک چین ہی ہوگا۔ اس کی تعمیر بھی چینی فن تعمیر کے معیار کے مطابق ہوگی۔ سال رواں کے اختتام تک اس منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔
منصوبے سے جڑی مشکلات؟
پنجاب حکومت میٹروٹرین منصوبے پر عوام کو کرائے کی مد میں سبسڈی دے گی یعنی غریب اور عام آدمی بھی اس کا ٹکٹ خرید سکے گا۔ لہذا، اس صورتحال میں یہ منصوبہ عوام دوست بھی ہوگا۔ لیکن۔۔۔ان تمام عوامی سہولیات کے باوجود ملکی خزانے اور صوبائی ذرائع آمدنی پر اس کا اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ بقول ماہرین:
اگر ہم یہ تصور کرکے چلیں کہ ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر کے خرچ سے چلنے والی میٹرو ٹرین میں پہلے ہی دن سے 5لاکھ افراد سفر کریں گے اور ہر مسافر کم از کم 100روپے خرچ کرے گا تو حکومت کو ابتدائی سرمائے (یعنی 1.6بلین ڈالر) کی ریکوری میں تقریباً 9سال لگیں گے ۔یہ امر ناممکن ہے کہ پہلے ہی دن سے 5لاکھ مسافر میٹروٹرین سے سفر کریں اور سال کے 365 دن سفر کریں۔
منصوبے کے تحت مسافر کو رعایتی نرخوں پر ٹرین کا ٹکٹ ملے گا جسے 100روپے فی مسافر بھی تصور کرلیا جائے تو خود حکومت کو یہ سبسڈی کتنی مہنگی پڑے گی، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ خرچ میں ٹرین کی آپریشنل لاگت شامل نہیں ہے یعنی ملازمین اور عملے کی تنخواہیں، روزانہ خرچ ہونے والے ایندھن کی قیمت، ٹرینوں کی مینٹی نینس کا خرچا، اسٹیشن کی دیکھ بھال، صاف ستھرائی، وغیرہ۔
ایک اور مشکل امر یہ بھی ہے کہ مذکورہ تمام اعداد و شمار کی بنیاد امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے میں 100روپے رکھی گئی ہے، جبکہ آنے والے سالوں میں اس میں اضافہ بھی ممکن ہے اور جب ڈالر بڑھتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ بہت ساری چیزیں بڑھ جاتی ہیں۔
اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ منصوبے پر عمل درآمد شروع کرنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر چین کو سرمایہ واپس نہ کرنا پڑے تو ہی اس منصوبے کا قابل عمل بنایا جا سکتا ہے، بصورت دیگر اس کا خرچ برداشت کرنا پاکستان جیسے غریب ملک کے لئے بہت ۔۔بہت۔۔ مشکل ہے۔