کہتے ہیں کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں، جنھیں زندگی بھر کے بندھن میں بندھنا ہوتا ہے وہ بھلے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں، دنیا کے جس بھی حصے میں ہوں، وقت آنے پر قسمت ایک دوسرے سے جا ملتی ہے اور یوں کبھی کبھار بالکل انجان دو لوگ بھی شادی کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ ہوا بے گھر اور بے آسرا بچوں کے ادارے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں آٹھ سال سے زندگی کے دن گزارتی لڑکی آمنہ گُل کے ساتھ، آمنہ بیس برس کی ہیں۔ آٹھ سال قبل وہ ادارے میں گمشدہ بچی کی حیثیت سے لائی گئیں۔ بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم بارہ سالہ لڑکی اس وقت اپنے ماں باپ یا گھر والوں کا پتہ نہ بتا سکی اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئی۔
چار ماہ قبل ادارے کی انتظامیہ کو امریکہ میں رہائش پذیر پاکستانی نژاد ثمر ملک کا رشتہ موصول ہوا اور انھیں آمنہ سے ملوایا گیا، لڑکی اور لڑکے کی رضا مندی سے رشتہ طے پایا اور اب دونوں کا نکاح ہو چکا ہے۔
نکاح کی تقریب چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں سجائی گئی۔ یہ پہلا موقع ہے جب اس ادارے نے کسی بچی کی شادی کر کے اسے رخصت کیا ہے۔ شادی کی تقریب میں ادارے کے تمام بچوں نے بھی شرکت کی اور اپنے سجنے سنورنے کا شوق بھی پورا کیا۔ تقریب میں چار چاند لگانے کے لئے جگہ کی سجاوٹ کا بھی خاص خیال رکھا گیا۔ راستے اور ہال کی سجاوٹ پھولوں سے کی گئی جس کا انتظام ایونٹ منیجر زارا اسلم نے بطور تحفہ کیا۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی سربراہ سارہ احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رشتہ طے پانے کے دوران تین سے چار بار لڑکے اور لڑکی کی ملاقات کروائی گئی۔ ادارے کے مستند افراد نے لڑکے کا گھر دیکھا اور اہل خانہ سے ملاقاتیں بھی کیں۔ جس کے بعد لڑکی کی رضامندی سے رشتے کے لیے ہاں کی گئی۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ ادارے کی ایک بیٹی کی شادی سے جو سلسلہ چل نکلا ہے وہ آگے بھی جاری رہے گا اور جہاں پہلے ان کی پرورش اور تعلیم کا بندوبست تھا، اب ان کے گھر بسانے کا بھی سوچا جائے گا۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو بے آسرا بچوں کا سہارا
لاہور میں قائم چائلڈ پروٹیکشن بیورو ایک ایسا ادارہ ہے جہاں نومولود سے لے کر سولہ سال کی عمر تک کے بچے ایک چھت تلے رہتے ہیں، کسی کے پاس ماں نہیں تو کسی کے پاس باپ کا شفیق سایہ نہیں اور زیادہ تر دونوں رشتوں سے محروم ہیں۔ غرض کہ ادارہ بچوں کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے لیکن اپنے والدین اور سگے رشتوں کی کمی پھر بھی یہاں رہنے والے تمام بچوں کی وہ مشترکہ محرومیاں ہیں، جو کبھی کم نہیں ہو سکتیں۔ ایسے ماحول میں زندگی گزارنے والے ان بچوں کے لیے ان کی ساتھی کی شادی کی تقریب ادارے میں خوشی اور اپنائیت کا احساس لانے کے لیے بھی ضروری سمجھی جا رہی تھی۔
شادی میں ادارے کے اسٹاف، ڈائریکٹرز اور بچوں نے آمنہ گُل کے گھر والوں کی ترجمانی کی۔ شادی کی تقریب میں شریک ایک بچی سمیرا عارف نے کہا کہ وہ خوش ہے کہ آج اس جیسی ایک لڑکی کی شادی ہو رہی ہے۔ جو بالکل اس کی بہنوں کی طرح ہے۔ 'پہلے وہ ایک دوسرے کا غم بانٹتی تھیں اور آج خوشیوں کی ساتھی ہیں'۔ سمیرا نے کہا کہ وہ سوچتی تھیں کہ آمنہ گُل ان میں بڑی ہے اور اس کی شادی ہونی چاہیئے۔ ادارے نے بھی اس کے بارے میں سوچا جس پر ہم خوش ہیں۔
نکاح کی تقریب میں مخیر حضرات نے بھی شرکت کر کے نوبیاہتا جوڑے کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور اسے ایک فیملی ایونٹ بنایا۔ لڑکے کی فیملی خاص طور پر شادی کے لئے امریکہ سے پاکستان پہنچی۔
دلہا ثمر ملک کی والدہ سعدیہ ملک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 'مجھے اس ادارے کا معلوم تھا اور سوچا تھا کہ یہیں سے ایک بیٹی اپنے بیٹے کے لیے لے کر جاؤں گی۔ اس سلسلے میں جب ہم نے یہاں کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ہمیں اپنے بیٹے کے لیے آمنہ پسند آئی ہم اس فیصلے سے مطمئن ہیں، ثمر اور آمنہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اچھے ساتھی ثابت ہوں گـے'۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے اس سلسلے میں آمنہ گل کے والدین تک رسائی کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن تاحال اس کے والدین کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔