پاکستان رینجرز کے درجنوں جوان روزانہ پرچم اتارنے کی تقریب کے لیے سکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات ہوتے ہیں۔ واہگہ سرحد سے کوئی ایک کلو میٹر پہلے سے اِن کی چیک پوسٹیں شروع ہوجاتی ہیں۔ آنے والے لوگوں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے نمبر نوٹ کیے جاتے ہیں اور پھر ان سب کی پارکنگ ایریاز تک رہنمائی کی جاتی ہے۔ یہ پارکنگ ایریاز بھی اصل بارڈر سے کوئی آدھا کلومیٹر دور ہیں اور یہاں سے آگے پیدل جانا پڑتا ہے۔ وی آئی پی سمیت مخصوص لوگ البتہ گاڑیوں میں آگے جاسکتے ہیں۔ لوگ جب بابِ آزادی پر پہنچتے ہیں تو وہاں سیکورٹی چیکنگ ہوتی ہے اور ہر آنے والے کو دس روپے کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ اندر اسٹیڈیم کی شکل کی ایک عمارت ہے جس کا ایک حصہ مردوں کے لیے اور دوسرا عورتوں کے لیے مختص ہے ۔
پاکستان رینجرز کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہاں گنجائش تو چار ہزار لوگوں کی ہے مگر ہفتہ اور اتوار کو رش بہت زیادہ ہوجاتا ہے اور یہ تعداد پانچ سے چھ ہزار کے درمیان تک پہنچ جاتی ہے۔ اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ سرحد کے دوسری طرف بھارتی علاقے میں بھی حاضرین کی تعداد کوئی کم نہیں ہوتی۔ جو لوگ واہگہ پر کھڑے ہوکر بھارت کی طرف موجود لوگوں کی تعداد دیکھتے ہیں اُن کی رائے بھی یہی تھی کہ بھارتی حصے میں بھی اس تقریب میں شرکت کا جوش و خروش پاکستان کے مقابلے میں کسی طور کم دکھائی نہیں دیتا۔
پرچم اتارنے کی تقریب اگرچہ سورج غروب ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے شروع ہوتی ہے مگر لوگ مغرب سے دواڑھائی گھنٹے پہلے ہی اسٹیڈیم میں پہنچنا شروع کردیتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں تو حاضرین کو کوئی خاص دشواری پیش نہیں آتی مگر گرمیوں میں وہاں اتنی دیر تک بیٹھنا کافی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ یہاں کوئی چھت نہیں ہے۔ کھلے آسمان کے نیچے ہزاروں لوگ مسلسل ملی نغمے سُنتے اور نعرے بازی کررہے ہوتے ہیں کہ بگلرز بِگل بجھا کر پرچم اُتارنے کی تقریب کا آغاز کردیتے ہیں۔
سرحد کے دونوں طرف چونکہ ایک ہی طرح کی تقریب جاری ہوتی ہے لہذا عجیب سماں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک بِگل اِدھر سے بجتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اُدھر سے بھی بِگل بجنا شروع ہوجاتا ہے۔ اِس کے بعد ایک جوان کی آواز اِدھر سے بلند ہوتی ہے تو ساتھ ہی بھارت کی طرف سے بھی ایک جوان کی آواز بلند ہوجاتی ہے۔ اِس طرح اِدھر سے پاکستان رینجرز کے جوان اور اُدھر سے بھارت سیکورٹی فورس کے جوان آگے بڑھتے ہیں اور سرحد کے دروازوں کے دونوں طرف ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھِر دونوں طرف سے سرحد کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور سب سے پہلے ایک پاکستانی جوان اور ایک بھارتی جوان ایک دوسرے سے ہاتھ مِلا کر خیر سگالی کا اظہار کرتے ہیں۔
خیر سگالی کے اس اظہار کے دوران بھی البتہ دونوں طرف جوانوں کا کھڑے ہونے اور مارچ پاسٹ کا انداز جارحانہ رہتا ہے جس کی حاضرین اپنے اپنے جوانوں کو داد بھی دیتے رہتے ہیں۔
اپنے اپنے پرچم اُتارنے سے پہلے دونوں طرف کے جوان مشترکہ پریڈ کرتے ہیں جس میں دونوں کا جارحانہ انداز نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اِس مشترکہ پریڈ کے بعد دونوں طرف بِگل بجتے ہیں اور پاکستان اور بھارت کے پرچم آہستہ آہستہ اُترنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جونہی یہ پرچم اُترتے ہیں تو جوان اپنے اپنے پرچم تہہ کرکے مخصوص انداز میں واپس ہوتے ہیں اور ساتھ ہی دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور تھوڑی سی نعرہ بازی کے بعد تقریب کے خاتمے کا اعلان ہوجاتا ہے۔ سورج غروب ہونے سے ایک گھنٹہ قبل شروع ہونے والی یہ پریڈ لگ بھگ آدھ گھنٹہ جاری رہتی ہے اور مغرب سے آدھ گھنٹہ پہلے ختم ہوجاتی ہے۔
تقریب کے دوران سبز رنگ کا لباس پہنے اور پاکستان پرچم اُٹھائے نعرے لگاتے ہوئے تین افراد نمایاں ہوتے ہیں۔ اِن میں ایک نام بابا مہر دین ہے۔ بابا مہردین برسوں سے مسلسل اس تقریب میں اِسی انداز میں شریک ہوتا ہے اور اب کافی ضیعف ہونے کے باوجود پھر بھی عین وقت پر یہاں پہنچ جاتا ہے۔ پاکستان رینجرز نے بابا مہردین کی باقاعدہ تنخواہ بھی مقرر کی ہوئی ہے۔ مہر دین کے علاوہ شفیق واہگہ اور عمران دو جوان ہیں جو بہت جذبے سے پرچم لہرانے اور نعرہ بازی کا کام کرتے ہیں۔ شفیق واہگہ کا کہنا تھا کہ اُس کو کوئی تنخواہ نہیں ملتی لیکن لوگ ویسے خوش ہوکر اُس کو کچھ رقم دیتے رہتے ہیں اور اس طرح روزانہ گُزر اوقات کے لیے کچھ پیسے وہ گھر لے جاتا ہے۔
شفیق واہگہ نے کہا کہ پرچم اُتارنے کی تقریب بنیادی طور پر رینجرز ہی کی تقریب ہے مگر اب اس کی ایک ثقافتی حیثیت بھی ہے کیونکہ پورے پاکستان سے لوگ جب لاہور آتے ہیں تو اُن میں سے اکثر یہ تقریب دیکھنے واہگہ بارڈر بھی آتے ہیں۔ شفیق واہگہ نے بتایا کہ لاہور شہر سے بہت سی بسیں اور مِنی بسیں انہی اوقات میں بارڈر کی طرف چلتی ہے جبکہ آٹو رکشہ اور چِنگ چی رکشہ بھی کافی تعداد میں لوگوں کو لے کر آتے ہیں۔
پاکستان رینجرز کے ایک ریٹائرڈ ملازم عبدالجبار اپنے کچھ مہمانوں کو یہ تقریب دکھانے لائے تھے۔ عبدالجبار نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اُن کی برسوں واہگہ بارڈر پر ڈیوٹی رہی ہے اور اُنہوں نے اس تقریب کی ابتداء بھی دیکھی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پاکستان کی طرف عام لوگوں نے پہلے اس تقریب میں شرکت شروع کی تھی جس کے بعد بھارت کی طرف بھی لوگ تقریب دیکھنے آنے لگے۔ عبدالجبار نے بتایا کہ پہلے کوئی لاؤڈ سپیکر وغیرہ نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی اس طرح مِلی نغمے سُنائی دیتے تھے۔ جب اُن سے کہا گیا کہ اب اکثر لوگ اس تقریب کی ثقافتی اہمیت پر زور دیتے ہیں تو عبدالجبار کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان رینجرز کے سابق ملازم ہیں اور وہ ہمیشہ اس کو پاکستان رینجرز اور بھارت بارڈر سیکورٹی فورس کی مشترکہ پریڈ ہی کہیں گے۔