اس نوجوان خاتون نے اپنے والد کے ادھورے خواب کی تکمیل انتہائی انوکھے انداز سے کی۔ سواری کے لئے موٹر سائیکل کا انتخاب کیا اور سفر کے لئے پاکستان کے بہت سے شہر قصبے اور دور دراز علاقے۔
ذرا سوچئے، پاکستان میں جو ماحول ہے سیکورٹی کی صورت حال سے لے کر معاشرتی پابندیوں تک، لیکن اس جرات مند لڑکی نے ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے اپنا سفر شروع کیا۔ راستے میں کس طرح کے کٹھن مراحل آئے، کیسے کیسے تجربات سے گزری، یہ تفصیلات خود زینت کی زبانی سنتے ہیں۔
زینت سفر کے دوران باقاعدگی سے اپنے سفر کے احوال بھی ڈائری میں لکھتی رہی ہیں اور اُنہوں نے فیس بک کا ایک صفحہ بھی بنایا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے زینت کا کہنا تھا، ’’جب میں دس مہینے کی تھی تو میرے والد وفات پا گئے اور میری ماں امید سے تھیں۔ ابو کی موت کے بعد میرا پورا خاندان جو کہ شارجہ میں رہتا تھا، واپس پاکستان آگیا۔ بچپن سے میرے دل میں سوال ہوتا تھا کہ اگر میرے ابو ہوتے تو وہ کیسے ہوتے اور ان کے کیا خواہشات ہوتیں؟
امی نے ایک دفعہ کہا کہ میرے ابو کی خواہش تھی کہ وہ موٹر سائیکل پر سفر کریں لیکن ان کو موقع نہیں ملا۔‘‘
زینت کا مزید کہنا تھا کہ جب میں 18 سال کی ہوئی، تب ہمارے لئے ٹرانسپورٹ کا کافی مسئلہ تھا۔ اس وقت میرے بھائی نے ایک موٹر سائیکل خریدی۔ امی نے کہا کہ آپ اپنے بھائی سے موٹر سائیکل سیکھ لو تاکہ خود مختار ہوجاؤ۔ پھر بھائی نے آہستہ آہستہ موٹر سائیکل چلانا سکھا دیا۔
زینت نے 2015 ء میں پہلی مرتبہ موٹر سائیکل پر شمالی علاقہ جات کا سفر کیا۔ اپنے اس سفر کی روداد اپنی ڈائری میں بھی لکھتی رہی اور ساتھ ہی اپنا ایک فیس بک کا صفحہ ’’ون گرل ٹو ویلز‘‘ کے نام سے شروع کیا ۔
زینت کا کہنا تھا، ’’اسی دوران میں نے اپنے فیس بک صفحے پر اپنی تمام تصاویر شئر کیں جن میں میں موٹر سائیکل پہ جا رہی ہوں۔ سفر کے دوران لوگوں کی بڑی تعداد نے میرے صفحے کو پسند کیا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ ایک لڑکی بھی موٹر سائیکل چلا سکتی ہے۔ میں نے صرف اپنے ابو کے یاد میں یہ سفر شروع کیا تھا۔ لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ لوگوں کی طرف سے مجھے اتنی حوصلہ افزائی ملے گی۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ شمالی علاقہ جات تو میں نے دیکھ لیے۔ اب چاہتی ہوں کہ سند ھ کی طرف بھی جاوں۔ موہنجوڈارو کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ میری دلچسپی تھر کے ریگستانوں میں سفر کرنا بھی ہے ۔
زینت کے بقول وہ ایک موٹیویشنل سپیکر کے طور پر بھی کام کر رہی ہیں۔
خواتین کو اپنے الفاظ کے ذریعے حوصلہ دیتی ہوں۔ جب وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ میں کچھ نہیں کر سکتی ہوں کیونکہ میں ایک عورت ہوں تو میں ان کو یہ سمجھاتی ہوں کہ آپ کا عورت ہونا ایک بڑی طاقت ہے کیونکہ آپ بچے پیدا کر سکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ ایک لڑکی ہوکرآپ اپنی ہرخواہش پوری کرسکتی ہیں اور ساتھ ساتھ پاکستان کا مثبت پہلو بھی دنیا کو دکھا سکتی ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کے فلم ڈائریکٹر عدنان سرور زینت کی زندگی پر فلم بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے زینت کا کہنا تھا، ’’موٹر سائیکل گرل‘‘ کے نام سے فلم بن رہی ہے جو 20 اپریل 2018 کو ریلیز ہو گی۔ میں بہت خوش ہوں۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ موٹر سائیکل پر سفر کے دوران اُنہیں مختلف مشکلات کا سامنا کر نا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اُنہوں نے اس کو جاری رکھا کیونکہ وہ اس خواب کو مکمل کرنا چاہتی تھیں اور اس میں اُن کا خاندان اور دوستوں نے اُن کا بھر پور ساتھ دیا۔ مستقبل میں وہ موٹر سائیکل پر سفر ایک خاص مقصد کے لئے کرنا چاہتی ہیں۔ مثلاً جب وہ کسی بھی علاقے کے ٹور پر جائیں گی تو ساتھ میں آگاہی یا کسی بھی بیماری کے لئے عطیات اکٹھا کریں گی۔