افغانستان سے ملحقہ ضلع خیبر کے سرحدی قصبے لنڈی کوتل میں سوموار کی صبح سینکڑوں کی تعداد میں قبائلیوں نے سیکیورٹی فورسز کی حراست میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے نوجوان کی نعش کو پشاور کو کابل سے ملانے والی شاہراہ پر رکھ کر احتجاج کیا۔
لنڈ ی کوتل کے نواحی علاقے چار باغ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان مبینہ طور پر سیکیورٹی اہل کاروں کی تحویل میں ہلاک ہو گیا۔
رشتہ داروں اور قبائلیوں کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران نوجوان کی ہلاکت تشدد سے ہوئی ہے، مگر سیکیورٹی اہل کاروں نے تشدد کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاطر خان نامی نوجوان نے اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو چارباغ میں واقع سیکیورٹی فورسز کے قلعے سے فرار ہونے کی کوشش کی، جس دوران وہ گر کر ہلاک ہو گیا۔
خاطر خان لگ بھگ ان 10 مشتبہ افراد میں شامل تھا جنہیں 20 دسمبر کی صبح افغان سرحد پر واقع علاقے پسید خیل خونہ کنڈاؤ میں سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں پر حملے کے بعد جوابی کارروائی میں حراست میں لیا گیا تھا۔
اس حملے میں ایک سیکیورٹی اہل کار ہلاک اور تین زخمی ہوئے تھے اور سرحد پار افغانستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کے روپوش عسکریت پسندوں نے اپنے ترجمان کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
پیر کی صبح جب ہلاک ہونے والے نوجوان کی نعش ان کے لواحقین کے حوالے کی گئی تو درجنوں افراد نے احتجاج شروع کر دیا۔ اور بعد میں لنڈی کوتل تحصیل کی مختلف بستیوں اور دیہاتوں سے بھی آ کر سینکڑوں افراد جمع ہو گئے اور نعش کو باچا خان چوک میں رکھ کر احتجاج کرنے لگے۔
لنڈی کوتل کے ایک پولیس عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیکیورٹی حکام نے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کر کے ان کے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں۔
ضلع خیبر میں تعینات اعلیٰ سیکیورٹی حکام سے بات چیت کے بعد ایک قبائلی رہنما نے مظاہرین کو بتایا کہ کمانڈنٹ کو اس واقعہ پر دکھ ہے اور انہوں نے ازالہ کرنے کا یقین دلایا ہے۔
تاہم اس دوران مظاہرین میں شامل نوجوانوں نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
قبائلی رہنما نے کہا کہ کمانڈنٹ دیگر گرفتار افراد کو رہا کرنے کا بھی یقین دلایا ہے۔
پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے ایک ٹوئٹ میں اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے تحریک کے کارکنوں کو لنڈی کوتل پہنچ کر احتجاج میں شامل ہونے کی ہدایت کی ہے۔