ایک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہونے والی اہم برطانوی شخصیت نے اتوار 19 مئی 1935 کو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ یہ خطہٗ عرب کا نقشہ بدلنے والےتاریخ کے ایک ایسے اہم کردار کی موت کا دن تھا جو اپنے پیچھے کئی داستانیں چھوڑ گیا تھا۔
آج مشرقِ وسطیٰ کا جو نقشہ ہم دیکھتے ہیں تو اس پر کئی ممالک نظر آتے ہیں۔ عراق، شام، اُردن اور سعودی عرب سمیت دیگر ملکوں میں تقسیم یہ خطہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔پہلی جنگِ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں نے اپنے مدِ مقابل سلطنتِ عثمانیہ اور جرمنی کو پسپا کرنے کے لیے جو فیصلے کیے وہ اس خطے میں نقشوں پر نئے ممالک کی شکل میں سامنے آئے۔
مؤرخین کے نزدیک برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم اور پہلی عالمی جنگ کے بعد ایک سیاسی مدبر کے طور پر سامنے آنے والے ونسٹن چرچل، اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ہربریٹ اسکوئتھ اور ان کی کابینہ میں شامل خزانے کے چانسلر ڈیوڈ لائیڈ اور وزیرِ جنگ لارڈ کچنر نے جدید مشرقِ وسطیٰ کی صورت گری کی۔ لیکن ان تاریخی تبدیلیوں کے اہم کردار کے طور پر سب سے زیاہ شہرت ٹی ای لارنس کو حاصل ہوئی۔
غیر تربیت یافتہ فوجی
تھامس ایڈورڈ لارنس کا شمار 20ویں صدی کی ایسی شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں بعد از موت ایک افسانوی کردار جیسی شہرت ملی اور دنیا انہیں 'لارنس آف عریبیہ' کے نام سے جانتی ہے۔
اپنی فوجی مہمات سے برطانیہ میں ممتاز مقام حاصل کرنے والے ٹی ای لارنس کے بارے میں مصنف ڈیوڈ مرفی نے اپنی کتاب 'لارنس آف عریبیہ' میں لکھا ہے کہ انہوں نے باقاعدہ فوجی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ البتہ پہلی عالمی جنگ میں ان کی مہمات نے دور رس اثرات مرتب کیے اور اس غیر تربیت یافتہ فوجی نے جدید مشرقِ وسطیٰ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔
ٹی ای لارنس کے تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کی ابتدائی زندگی سے اس بات کا شائبہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کوئی کامیاب عسکری تدبیر کار (اسٹرٹیجسٹ) یا مہم جو بن سکتے ہیں۔ البتہ ان کے ابتدائی رجحان سے لگتا تھا کہ وہ ایک آرکیالوجسٹ یا ماہرِ آثار قدیمہ ضرور بنیں گے۔ خود لارنس کو بھی تصنیف اور طباعت کے کام میں زیادہ دلچسپی تھی۔
دورِ طالبِ علمی میں لارنس کی تاریخ سے دلچسپی کی وجہ ہی سے وہ ترکوں کے خلاف عربوں کی بغاوت منظم کرنے میں ایک اہم کردار ثابت ہوئے۔
تھامس ایڈورڈ لارنس 16 اگست 1888 کو برطانیہ کے علاقے شمالی ویلز میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد سر تھامس چیپمین آئرلینڈ کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جب کہ والدہ سارا لارنس تھامس چیپمین کے بچوں کی آیا تھیں۔
لارنس کے سوانح نگار ڈیوڈ مرفی کے مطابق اس حوالے سے معلومات تو دستیاب نہیں کہ ان دونوں کے مراسم کب قائم ہوئے۔ البتہ تھامس چیپمین نے سارا کے ساتھ اپنے بیوی بچے اور آبائی گھر کو چھوڑ دیا اور بعد میں ان دونوں کے ہاں پانچ بچوں کی پیدائش ہوئی۔
تھامس چیپمین نے چوں کہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق نہیں دی تھی اس لیے برطانیہ کے قانون کے مطابق وہ سارا سے شادی نہیں کر سکے اور انہوں نے اپنی بیوی کا خاندانی نام 'لارنس' اختیار کر لیا اور یہی نام ان کے بچوں کو بھی دیا گیا۔ 1896 میں اس خاندان نے اوکسفرڈ میں سکونت اختیار کی۔
مرفی کے مطابق انہیں لڑکپن ہی میں اپنے والدین کے تعلق کی نوعیت کا علم ہو گیا تھا اور اپنی اس 'غیر قانونی' حیثیت کے احساس نے اس کی زندگی کو متاثر بھی کیا۔
لارنس نے 1896 میں سٹی آف اوکسفرڈ ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور 1907 تک تعلیم مکمل کی۔ بچپن میں وہ سب سے الگ تھلگ رہنے والا لڑکا تھا۔ لیکن اس میں بلا کا تحمل تھا۔
دورِ نوجوانی میں لارنس نے کبھی فوجی کریئر کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ انہیں تاریخی مقامات میں بہت دلچسپی تھی۔ 1906 سے 1907 کے دوران لارنس نے فرانس میں قلعوں کی طرزِ تعمیر کا مطالعہ کیا اور بعد ازاں اوکسفرڈ یونیورسٹی میں بھی اس نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ 1908 میں لارنس نے شام میں صلیبی دور کے قلعوں کا مطالعاتی دورہ بھی کیا۔
لارنس کا سیکڑوں میل کا سفر
اسی دوران لارنس نے شام اور فلسطین کے علاقوں میں 1770 کلو میٹر کا سفر کیا جو اس دور میں ایک بڑا خطرہ مول لینے کے مترادف تھا۔اس سفر میں لارنس کو ایک مرتبہ گولی بھی لگی اور اس کی موت کی خبر بھی حلب کے اخباروں میں شائع ہوئی تھی۔
اس سفر کے دوران کی گئی تحقیق کی بنیاد پر لارنس نے صلیبی جنگوں کے یورپی فوجی تعمیرات پر اثرات کے موضوع پر بی اے کا مقالہ لکھا۔ 1910 میں لارنس نے اوکسفرڈ سے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد لارنس نے دوبارہ مشرقِ وسطیٰ کا سفر کیا اور موجودہ لبنان میں شامل شہر 'جبیل' میں عربی زبان سیکھی۔
اپنے اس تعلیمی سفر کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ لارنس کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا اور پھر نومبر 1910 میں اسے شام میں 'کارکمیش' کے قدیم آثار کی کھدائی کی ملازمت مل گئی۔
اسی سلسلے میں لارنس نے 1911 میں شام کا سفر کیا اور اگلے چار برس تک مشرقِ وسطیٰ میں آثار قدیمہ پر کام کیا۔اس پورے عرصے میں لارنس مسلسل ان علاقوں میں کام کرتا رہا جو سلطنتِ عثمانیہ کی حدود میں شامل تھے۔
کارکمیش میں کام کرتے ہوئے لارنس نے آرکیالوجی اور عربی میں اپنی مہارت بڑھائی۔ یہاں کام کے دوران لارنس کو عرب روایات کے بارے میں گہری معلومات حاصل ہوئیں اور اگلے ہی برس انہوں نے موجودہ عراق میں شامل علاقوں کا سفر بھی کیا۔
مؤرخین کے مطابق عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ لارنس نے اسی دوران برطانیہ کے لیے جاسوسی شروع کر دی تھی۔ اس تاثر کے لیے یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ لارنس نے شام میں کارکمیش کے علاقے سے گزرنے والی برلن تا بغداد ریلوے لائن کی تفصیلات جمع کرنا شروع کردی تھیں جسے جرمن انجینئرز نے تعمیر کیا تھا۔
جاسوسی کا آغاز
تاہم لارنس آف عریبیہ نے باقاعدہ طور پر 1914 میں ملٹری انٹیلی جنس کے لیے کام کا آغاز کیا۔ انہیں کالج کے ایک ساتھی لیونارڈ وولی نے جزیرہ نما سینائی میں ہونے والے ایک سروے میں شریک ہونے کی دعوت ارسال کی تھی۔
اسکاٹ اینڈریسن کی کتاب 'لارنس اِن عریبیہ' میں اس کا تذکرہ ملتا ہے کہ بظاہر اس سروے کا مقصد قدیم آثار کا کھوج لگانا تھا۔ جب کہ دراصل برطانیہ کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشن کی ہدایت پر سینائی کے علاقے سے سوئز کی جانب عثمانی افواج کے حملے کے امکانات اور برطانوی فوج کو پیش آنے والی ممکنہ مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے یہ سروے کرایا جا رہا تھا۔
لارنس اور اس کا دوست وولی سویلین کے طور پر اس سروے میں شریک ہوئے اور اسی دوران لارنس کی ملاقاتیں کئی انٹیلی جنس افسران سے ہوئیں۔
سن 1914 میں جب عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو لارنس نے برطانیہ کے جنرل اسٹاف انٹیلی جنس کے جیوگرافکل سیکشن میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔
لارنس نے سویلین کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔ تاہم 26 اکتوبر 1914 کو انہیں باقاعدہ فوج میں سیکنڈ لیفٹننٹ بنا دیا گیا۔ یہ تقرری ایسے افسران کی 'اسپیشل لسٹ' کے تحت ہوئی جو باقاعدہ فوجی تربیت کے بغیر کسی خاص مشن کے لیے بھرتی کیے جاتے ہیں۔
کچھ ہی دنوں بعد پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ جس میں اس وقت کی بڑی عالمی قوتوں کے دو بڑے گروہ آمنے سامنے تھے۔ مرکزی طاقتوں کے گروہ میں جرمنی کے ساتھ سلطنتِ عثمانیہ، ہنگری اور آسٹریا شامل تھے جب کہ برطانیہ، فرانس اور روس اتحادی گروپ کی سرکردہ قوتیں تھیں۔
اسی دوران دسمبر 1914 میں لارنس قاہرہ میں انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ میں شامل ہوگئے۔
ڈیوڈ مرفی کے مطابق لارنس اس علاقے میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے کام کا تجربہ رکھتے تھے لیکن کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کی مقامی زبان، قبائل اور جغرافیے سے واقفیت خطے کے مستقبل سے متعلق انتہائی اہم مہمات میں کام آنے والی تھی۔
انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ میں لارنس کو عثمانی فوجی اور سیاسی قائدین سے متعلق معلومات جمع کرنے کی ذمے داری دی گئی۔ موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر لارنس ان کے تفصیلی شخصی خاکے لکھے جن میں انسانی نفسیات سے متعلق ان کی گہری معلومات اور تجزیے کی صلاحیت جھلکتی تھی۔
اس دوران سوئز کینال پر ترکوں کا حملہ ناکام ہونے کے بعد قاہرہ میں ترک جنگی قیدیوں کی بڑی تعداد لائی گئی اور لارنس کو ان قیدیوں سے انٹرویو کرنے کی ذمے داری دی گئی۔
لارنس چوں کہ پہلے ہی سلطنتِ عثمانیہ میں شامل فلسطین اور شام کے علاقوں کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے تھے اس لیے ترکی کے فوجیوں سے بہت جلد بے تکلف ہو کر ان سے فوج کے متعلق بہت سے باتیں معلوم کر لیا کرتے تھے۔
قیدیوں سے ہونے والی گفتگو سے لارنس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ترک فوج میں شامل عربوں کو تنخواہوں، طبی سہولتوں اور ترک فوجی افسران کی ناقص کارکردگی اور ان پر بڑھتے جرمنی کے اثر و رسوخ سے متعلق شکایات پیدا ہو گئی ہیں۔
مختلف مبصرین کا کہنا ہے کہ لارنس ان معلومات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ عثمانی افواج میں شامل عربوں کو بغاوت پر آسانی سے اکسایا جا سکتا ہے۔
جنگ کے دوران ہی 1915 کے وسط میں لارنس کے دو بھائی ول اور فرینگ فرانس میں ایک کارروائی میں مارے گئے۔ اس سے لارنس کو مغربی محاذ پر جنگ کی شدت کا احساس ہوا۔
مصر اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں فوجی کارروائیوں کا محور تھا۔ لارنس کو اپنے مشاہدے کی بنیاد پر اندازا ہو چکا تھا کہ مشرقی محاذ پر جرمنی کو روکنے کے لیے اس کے اتحادی ترکی کو کمزور کرنا ہو گا۔
انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینیکا کے مطابق 1916 میں لارنس برطانوی سفارت کار سر رونلڈ اسٹورس کے ساتھ ایک مشن پر عرب گئے جہاں ان کی ملاقات شریفِ مکہ حسین بن علی سے ہوئی۔
سلطنتِ عثمانیہ میں حجاز پر، جہاں مسلمانوں کے دو مقدس ترین شہر مکہ اور مدینہ ہیں، پیغمبرِ اسلام کے قبیلے بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والے خاندان کا حکمران بنایا جاتا تھا اور یہ 'شریفِ مکہ' کہلاتے تھے۔
عربوں کی بغاوت
ترکی میں نوجوانانِ ترک کے نام سے شہرت پانے والا اصلاح پسند جماعتوں کا اتحاد قدم جما چکا تھا اور ان کی جانب سے نظامِ سلطنت میں کئی تبدیلیوں کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا۔ اسی لیے شریفِ مکہ کو اپنی معزولی کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
اسی بنا پر شریفِ مکہ حسین بن علی نے جون 1915 میں سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت شروع کر دی تھی۔ جس کے لیے ایک اندازے کے مطابق مختلف عرب قبائل سے تعلق رکھنے والے 30 ہزار افراد کی فوج تیار کی گئی تھی۔
اس فوج کو شریفِ مکہ کے بیٹے علی، عبداللہ، فیصل اور زید کمانڈ کر رہے تھے۔ اس بغاوت میں حصہ لینے والوں کا تعلق جزیرہ نما عرب کے مغربی کنارے پر بسنے والے قبائل سے تھا۔
اسٹارس اور لارنس نے حسین کے بیٹے عبداللہ سے مشاورت کی اور لارنس کو مزید بات چیت کے لیے شریفِ مکہ کے دوسرے بیٹے فیصل سے تبادلۂ خیال کی اجازت دے دی گئی۔فیصل مدینہ کے جنوب مغرب میں عرب فوجوں کی قیادت کر رہے تھے۔
SEE ALSO: 29 اکتوبر 1923؛ جب مصطفیٰ کمال اتا ترک نے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کیااسی برس نومبر میں واپس قاہرہ آ کر لارنس نے اپنے اعلیٰ افسران پر عربوں کی بغاوت کے لیے اسلحہ اور مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے زور دیا۔
اس دوران برطانیہ سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عربوں کی بغاوت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اس لیے لارنس کو شریفِ مکہ کے بیٹے فیصل کی زیرِ قیادت فوج میں بطور رابطہ کار افسر شامل کرا دیا گیا۔
گوریلا جنگ
ڈیوڈ مرفی کے مطابق لارنس کو اس کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف کھڑی ہونے والی عرب بغاوت میں خاصا رسوخ حاصل ہو گیا۔ بلکہ لارنس نے خود یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس تحریک کے دماغ بن گئے۔
اُن کے لیے دوسرا اہم ہدف ترکوں کے خلاف گوریلا کارروائیاں منظم کرنا تھا جس میں خاص طور پر سامان رسد کی ترسیل میں خلل ڈالنے کے لیے پل اور پٹریاں تباہ کرنے کی کارروائیاں کی گئیں۔
ان کارروائیوں سے دمشق سے مدینہ تک ریل کی آمد و رفت کو محال کر دیا گیا جس سے ترکوں کی رسد کے ساتھ ساتھ مزید فوجی کمک کا راستہ روک دیا گیا۔ اس کی وجہ سے وہ عرب باغیوں کے سامنے زیادہ دیر ٹھہر نہ سکے۔
مرفی لکھتے ہیں کہ ریل کی پٹریاں اور پل تباہ کرنے میں لارنس نے اس قدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ اسے پسند کرنے والے بعض بدوؤں نے اسے 'امیرِ ڈائنامائٹ' کہنا شروع کر دیا تھا۔
ان کارروائیوں میں اپنی مہارت اور دلیری سے قائل کرنے کے بعد لارنس نے عرب شیوخ سے ترکوں کی شکست کے بعد حاصل ہونے والے مال اور برطانیہ کی جانب سے سونے کے سکے دلانے کے وعدے کیے۔ ساتھ ہی عربوں کو مکمل آزادی دلانے کے عہد و پیمان بھی باندھے۔
بحیرۂ احمر کے شمالی کنارے میں عقبہ پر عرب گوریلا جنگجوؤں کو پہلی بڑی کامیابی ملی اور دو ماہ کی کوششوں کے بعد عرب جنگجوؤں نے جولائی 1917میں اس پر قبضہ کر لیا۔
اس کے بعد لارنس نے برطانوی جنرل سر ایڈمنڈ ایلنبائی کی سربراہی میں یروشلم کی جانب پیش قدمی سے عرب تحریک کو جوڑنے کی کوشش کی لیکن اس میں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
SEE ALSO: جب ایک قتل نے عالمی جنگ چھیڑ دیاسکاٹ اینڈریسن کی کتاب 'لارنس اِن عریبیہ' کی کتاب کے مطابق لارنس کا کہنا تھا کہ اسی برس شام کے علاقے 'درعا' میں اسے ترکوں نے گرفتار کر لیا تھا اور ان کے بقول انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور بعد ازاں وہ قید سے فرار ہو گئے تھے۔
ترکوں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد تشدد اور فرار سے متعلق لارنس کے بیانات کو اس کے بعض تذکرہ نگار چیلنج کرتے ہیں۔تاہم عام طور یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس واقعے نے اسے گہرے جسمانی اور نفسیاتی زخم دیے جو کبھی بھر نہیں پائے۔
کچھ ماہ بعد لارنس نے یروشلم میں فتح کے جشن کے لیے ہونے والی پریڈ میں شرکت کی اور دوبارہ شریفِ مکہ کے بیٹے فیصل کی فوج سے جا ملا جو اب شمال کی جانب بڑھ رہی تھی۔
اس وقت تک لارنس کو برطانوی فوج میں لیفٹننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی تھی اور 'ڈسٹنگویش سروس آرڈر' کا تمغہ بھی مل چکا تھا۔
اکتوبر 1918 تک عرب فوج دمشق پہنچ چکی تھی جب کہ لارنس مسلسل سفر سے دماغی اور جسمانی طور پر تھک چکے تھے۔ اس دوران وہ کئی بار زخمی بھی ہوئے۔ دشمن کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور میدانِ جنگ میں انہوں نے اپنے حریفوں کو زخم لگائے لیکن عربوں کے دمشق پہنچنے کے بعد آپس میں ہونے والے اختلافات سے وہ بد دل ہو گئے اور ان کی یہ امید جاتی رہی کہ عرب کبھی اپنے قبائلی اختلاف فراموش کرکے ایک قوم بھی بن سکیں گے۔
بریٹینیکا کے مطابق لارنس کو یہ بھی علم ہو گیا تھا کہ برطانیہ اور فرانس کے درمیان ہونے والے 'سائیکس پیکو' معاہدے کی صورت میں عربوں کے ساتھ پہلے ہی دھوکہ ہو چکا ہے۔
SEE ALSO: سعودی عرب: جب شاہ سعود اپنی ہی سازش کا شکار ہو کر اقتدار سے محروم ہوئےاس معاہدے کے تحت برطانیہ اور فرانس نے سلطنتِ عثمانیہ میں شامل فلسطین، شام، عراق اور لبنان کے علاقے آپس میں تقسیم کر لیے تھے اور اسے روس کی تائید بھی حاصل تھی۔
ان حالات سے دل برداشتہ ہوکر لارنس واپس برطانیہ چلے گئے اور 30 اکتوبر 1918کو جب انہیں اعزازات سے نوازنے کے لیے بادشاہ جارج پنجم نے دربار میں طلب کیا تو انہوں نے نرمی کے ساتھ یہ اعزاز لینے سے انکار کر دیا۔
جولائی 1919 میں لارنس کو بطور لیفٹننٹ کرنل فوجی خدمات سبک دوش کردیا گیا۔لیکن اس دوران لارنس نے عربوں کی آزادی کے لیے 1919 میں ہونے والے پیرس امن کانفرنس میں کوششیں جاری رکھیں بلکہ وہ اس کانفرنس میں عرب لباس پہن کر شریک بھی ہوئے تھے۔
خاص طور پر لارنس کی کوشش تھی کی شام اور لبنان کو باقی عرب دنیا سے کاٹ کر فرانس کے زیرِ اختیار دینے کا فیصلہ تبدیل کر دیا جائے لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔اس دوران لارنس نے اپنی یاد داشتوں پر کام شروع کردیا تھا اور جنگ کے دوران ان کی مہمات کا چرچا بھی ہونے لگا تھا۔
لارنس سے 'لارنس آف عریبیہ'
قاہرہ میں ایک جونیئر افسر رہنے والے لارنس کو ایک معروف شخصیت بنانے میں نوجوان امریکی مصنف و اداکار اور تفریحی پروگرامز کے منتظم لوویل تھامس نے بنیادی کردار ادا کیا۔
پہلی عالمی جنگ کے پس منظر میں مشرقِ وسطیٰ کے حالات پر ڈیوڈ فرومکن نے اپنی کتاب ’A Peace to End All Peace‘ میں لکھا ہے کہ اوہایو سے تعلق رکھنے والا 25 سالہ تھامس شہرت کی تلاش میں تھا۔ 1917 تک اس نے خطابت کی تربیت دینے کا کام کیا اور اتنے پیسے جمع کر لیے جن سے وہ برطانیہ پہنچ گیا۔
اس کے بعد لوویل تھامس نے ایک کیمرہ مین کا انتظام کیا اور مشرقِ وسطیٰ پہنچ گیا۔ یہاں اس کی ملاقات لارنس سے ہوئی جو عرب لباس پہنتا تھا اور ترکوں کے خلاف عربوں کی بغاوت کومنظم کررہا تھا۔ لوویل تھامس کو ایک سنسنی خیز داستان کے کردار مل گئے تھے۔ اس نے یہ داستان لکھنے کا فیصلہ کیا اور لارنس کے ساتھ شریفِ مکہ حسین بن علی اور اس کے بیٹے فیصل کے ترکوں کے خلاف بغاوت کے کرداروں میں رنگ بھرنا شروع کردیا۔
فرومکن کے مطابق اس داستان کو دلچسپ بنانے کے لیے اس میں رنگ آمیزی کی گئی اور لارنس کو ترک سلطنت نابود کرنے والی عرب بغاوت کا رہنما بنا کر پیش کیا گیا۔
تھامس نے 'لاسٹ کروسیڈ' کے عنوان سےایک شو ترتیب دیا جس میں تصاویر کے ساتھ لارنس کے جنگی کارنامے لیکچر کی صورت میں بیان کیے جاتے تھے۔
اس نے یہ شو پہلے نیویارک میں پیش کیا جس سے متاثر ہوکر ایک برطانوی نے لندن میں اس کا اہتمام کرایا جسے وہاں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔چھ ماہ کے اندر یہ شو لگ بھگ 10 لاکھ افراد نے دیکھا۔ بعد میں تھامس نے اس شو کو دنیا بھر میں دکھایا۔ اس کی کامیابی سے وہ ایک امیر شخص بن گیا اور 'لارنس آف عریبیہ' کو دنیا بھر میں ہیرو بنا کر پیش کیا جانے لگا۔
فرومکن کا کہنا ہے کہ لارنس نے خود بھی بھیس بدل کر تھامس کے شو دیکھے اور اس داستان میں اپنے حوالے سے ہونے والے مبالغے پر وہ شرمندگی محسوس کرتا تھا۔
مشیر برائے عرب امور
ڈیوڈ فرومکن کے مطابق لوگ تھامس کی باتوں پر اعتبار کر رہے تھے۔ اسی لیے لارنس کی بڑھتی ہوئی شہرت کے باعث 1921 میں انہیں برطانیہ کے وزیر برائے نو آبادیات ونسٹن چرچل کا مشیر برائے عرب امور مقرر کر دیا گیا۔
لارنس نے اسی حیثیت میں چرچل کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ سے متعلق فیصلوں کے لیے قاہرہ میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی۔ برطانوی حکام کی یہ کانفرنس خطے کے حوالے سے اہم فیصلوں کے لیے طلب کی گئی تھی۔
اس کانفرنس میں میسو پوٹیمیا کے خطے میں عراق کے نام سے ملک بنا کر شریفِ مکہ کے بیٹے فیصل کو اس کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ جب کہ فیصل کے بھائی عبداللہ کو اردن (ٹرانس جارڈن) کی سلطنت دے دی گئی۔
SEE ALSO: سعودی عرب کا یومِ تاسیس:’محمد بن عبدالوہاب کا نام تاریخ سے مٹایا جارہا ہے‘اس منصوبے میں اگرچہ لارنس کی مشاورت شامل تھی لیکن اول تو اسے شام میں فرانس کی کارروائیوں پر اعتراض تھا کیوں کہ قاہرہ کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں کے بعد برطانیہ اور فرانس نے سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ انتظام عرب علاقے آپس میں بانٹ لیے تھے۔ اس کے علاوہ فیصل کو بادشاہ بنا کر عراق کو ایک علیحدہ ملک بنا دیا گیا تھا۔اس لیے لارنس نے عربوں کی بغاوت کے دوران ان سے مکمل آزادی کے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہو سکے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ قاہرہ کانفرنس سے واپسی کے بعد لارنس نے اپنی مقبولیت اور اخبارات میں اپنا رسوخ بھی استعمال کیا۔ البتہ کوئی نتیجہ نہ نکلا اور 1922 میں وہ تمام عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔
اس کے بعد حجاز اور عرب میں بھی حالات تیزی سے تبدیل ہوناشروع ہوئے۔ برطانیہ سے وعدہ خلافی کے شکایت کی وجہ سے شریفِ مکہ نے سوویت یونین سے روابط بڑھانا شروع کردیے تھے۔ 1902 میں ابنِ سعود نے ریاض کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔
ابن سعود کے جدِ اعلیٰ محمد بن سعود نے 1727 میں پہلی سعودی ریاست 'اماراتِ درعیہ' کی بنیاد رکھی تھی اوربعدازاں 1744 میں انہوں نے مذہبی عالم اور مبلغ محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ اتحاد کرکے نجد میں اپنی حکومت کو آگے بڑھایا تھا۔
ترکوں کی حجاز سےپسپائی کے بعد ابن سعود نے حجاز کی جانب پیش قدمی کرنا شروع کردی تھی۔ شریفِ مکہ جب برطانیہ کی حمایت سے محروم ہوئے تو اکتوبر 1924 میں ابن سعود نے حجاز پر بھی اپنی حکومت قائم کی اور 1932 میں حجاز ، نجد اور دیگر علاقوں پر مشتمل اپنی سلطنت سعودی عرب کی بنیاد رکھی۔
گمنامی کی تلاش
لارنس نے 1922 میں فوج سے سبک دوشی کے بعد پہلے 1923 اور پھر 1925 میں 'رائل ایئر فورس' میں شمولیت اختیار کی اور 1935 تک وہ فضائیہ سے منسلک رہے۔
لارنس نے بے پناہ مقبولیت کے باوجود گمنامی کی زندگی کو ترجیح کیوں دی? اس پر کئی آرا پائی جاتی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ عربوں کے ساتھ برطانیہ کے سلوک کے خلاف یہ ان کا خاموش احتجاج تھا۔کچھ کے نزدیک جنگ کے باعث ہونے والا ذہنی دباؤ اس کا سبب تھا۔
بعد ازاں لارنس نے خود بھی ایک جگہ یہ لکھا کہ وہ "دوڑ سے نکل کر ایسے لوگوں میں رہنا چاہتے ہیں جو دوڑ میں شامل نہیں۔"
'ٹی ای لارنس سوسائٹی' کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق 1927میں لارنس کو رائل ایئر فورس نے کراچی بھیجا تھا۔
لارنس کو کراچی کے ڈرگ روڈ پر قائم ڈپو میں تعینات کیا گیا۔ مشرقِِ وسطیٰ میں گوریلا جنگ منظم کرنے والے لارنس نے یہاں ایک سال کا عرصہ جہازوں کی اسمبلنگ کے لیے بنائے گئے ڈپو میں گزارا۔طیارے کے انجنوں کی روز مرہ مرمت اور دیکھ بھال کا ریکارڈ رکھنا بھی لارنس کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔
SEE ALSO: چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ، جس نے مشرقِ وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیاکراچی میں قیام کے دوران لارنس نے اپنے دوستوں کو جو خطوط لکھے ان میں ڈپو کے حالات پر افسوس کا اظہار کیا گیا جب کہ کراچی کے موسم کو عرب کے صحراؤں سے قریب ترین بتایا تھا۔
سن 1928 میں لارنس کو برطانوی دور کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے علاقے میران شاہ میں تعینات کیا گیا۔
مرفی کے مطابق اس حوالے سے اس دور میں کئی سازشی نظریات سامنے آئے کہ دراصل لارنس کو ہندوستان کے کمیونسٹوں پر نظر رکھنے یا افغانستان میں جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا۔
برطانیہ سے دور کراچی اور میران شاہ میں اپنے قیام کے دوران لارنس نے عرب میں اپنی مہمات کی یادداشتیں 'سیون پلرز آف وزڈم' پر کام جاری رکھا۔اس کے علاوہ قدیم یونانی شاعر ہومر کے معروف رزمیہ نظم 'اوڈیسی' کا ترجمہ بھی مکمل کیا۔
یہاں قیام کے دوران رائل ایئر فورس میں گزرنے والے دنوں کی یادداشتیں بھی مرتب کیں جو بعد میں 'دی منٹ' کے نام سے شائع ہوئیں۔ لارنس نے اس دوران انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینکا کے لیے بھی مضامین لکھے۔
لارنس کی موٹرسائیکل حادثے میں ہلاکت
لارنس کے حالاتِ زندگی پر شائع ہونے والی کتابوں اور یاد داشتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ہمیشہ سے تیز رفتار موٹر سائیکلیں رکھنے اور جہاز اڑانے کا شوق تھا۔
انہوں نے کبھی جہاز اڑانے کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی لیکن جنگی محاذ پر کئی مرتبہ ہوائی سفر کیے۔
لارنس نے بعد میں رائل ایئر فورس کے لیے تیز رفتار کشتیاں بنانے کا کام کیا۔ 1935 میں وہ فضائیہ سے ریٹائر منٹ کے بعد برطانیہ کے علاقے 'ڈورسیٹ' منتقل ہوگئے اور وہاں 'کلاوڈز ہل' پر ایک چھوٹے سے مکان میں رہنا شروع کر دیا۔
اپنے گھر واپس آتے ہوئے 13مئی کو لارنس کی موٹر سائیکل حادثے کا شکار ہوگئی جس میں وہ شدید زخمی ہوئے اور چھ دن تک زندگی و موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد 19مئی 1935کو لارنس کی موت ہوگئی۔
لارنس کے علاج کرنے والے نوجوان نیوروسرجن ہیو کیرنز افسانوی شہرت رکھنے والے لارنس کی اس طرح ایک حادثے میں موت کو فراموش نہیں کرسکے۔
انہوں نے اس کے بعد موٹر سائیکل کے حادثات میں موت کے اسباب پر تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ زیادہ تر افراد سر پر لگنے والی شدید چوٹ کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارتے ہیں۔ ہیو کیرنز کی تحقیق سے موٹر سائیکل کے ہیلمٹ کی ایجاد اور بعد میں اسے قانونی طور پر لازمی کرنے میں مدد ملی۔
حقیقت سے کہانی تک
لارنس کی موت کے بعد یہ کہانی ختم نہیں ہوئی۔ عرب بغاوت سے متعلق ان کے تجربات کی روشنی میں بعد میں آنے والے اسکالرز نے بہت کچھ لکھا۔
لارنس کی شخصیت اور تجربات پر مقالے لکھے گئے اور زندگی پر کتابیں لکھی گئیں۔ 1962میں ڈیوڈ لین کی فلم 'لارنس آف عربیہ' نے ایک بار پھر اس کردار کو دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا۔
اس فلم میں اداکار پیٹر او ٹول نے لارنس کا کردار ادا کیا۔ وہ حقیقی زندگی کے لارنس سے زیادہ دراز قد اور وجیہہ تھے۔
اس کے علاوہ بھی اس فلم میں کئی تاریخی حقائق بیان نہیں ہو سکے۔ اس فلم کی مقبولیت کے بعد 'لارنس' کا کردار تھیٹر پر بھی سامنے آتا رہا اور 1992میں ٹی وی سیریز 'دی ینگ انڈیانا جونز کرانیکل' میں بھی لارنس کا کردار دکھایا گیا۔
لارنس کے سوانح نگار کہتے ہیں کہ اس کی حقیقی زندگی اور افسانوں میں فرق کرنا بہت مشکل ہے۔
لارنس کی زندگی پر اپنی کتاب میں ڈیوڈ مرفی نے لکھا کہ محسوس ہوتا ہے ان سے متعلق داستانیں ان کے حقیقی کردار سے آگے نکل گئیں۔ان کے بقول اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے نقشے پر ہمیں آج جو مشرقِ وسطیٰ نظر آتا ہے اس کی تشکیل میں لارنس کا کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا۔