چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زیر صدارت جمعہ کو سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا جس میں تمام 17 جج صاحبان نے عدلیہ مخالف ’مہم‘ کے حوالے سے صورت حال کا جائزہ لینے کے علاوہ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض کے اس حالیہ متنازع انٹرویو کے حصے بھی دیکھے گئے جس میں عدلیہ خصوصاً چیف جسٹس کے خلاف الزامات لگائے گئے۔
عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے متعلق مقدمہ ایک روز قبل یہ کہہ کر نمٹا دیا تھا کہ اگر حکومت چاہے تو وہ قانونی تقاضے پورے کر کے اس کی تحقیقات کرے جس میں معروف کاروباری شخصیت کو بھی شامل کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ارسلان کے خلاف دستیاب شواہد مقدمے کو آگے بڑھانے کے لیے ناکافی ہیں۔
مگر چیف جسٹس کے بیٹے کے خلاف الزامات اور اس سے جڑے منظر عام پر آنے والے دیگر اسکینڈلز بدستور میڈیا پر ہونے والی بحث کا محور ہیں اور پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران اس ضمن میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد عمومی تاثر یہ ہے کہ اس سارے معاملے کا مقصد عدلیہ کو بدنام کرنا ہے۔
عدلیہ کے خلاف اس مہم نے بظاہر وکلاء کی منقسم برادری ایک بار پھر یکجا کر دیا ہے اور انھوں نے چیف جسٹس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے چھوٹی بڑی احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔
لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری ذوالفقار نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض کی طرف سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے متعلق بیانات کا مقصد براہ راست عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔
’’جب سے موجودہ چیف جسٹس آئے ہیں وہ آزاد عدلیہ کی ایک علامت ہیں اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔ جو ہمارے حزب اقتدار بینچ سب کچھ کر رہا ہے کیوں کہ چیف جسٹس لاپتہ افراد کا مقدمہ سن رہے ہیں ۔۔۔ وزیراعظم وہاں پیش ہو رہے ہیں اور قانون کی اس پاسداری کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے نمائندے بشمول وزیراعظم یوسف رضا گیلانی عدالت عظمٰی کو بدنام کرنے کی اس پوری مہم سے مسلسل لاتعلق کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
وزیراعظم گیلانی کے مشیر برائے سیاسی امور فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت اپنے اس موقف پر قائم ہے۔
’’صدر اور وزیراعظم صاحب نے واضح ہدایات دیں اپنی پارٹی کے لوگوں کے کہ آپ غیر جانبدار رہیں گے اور کسی طرح کا بیان نہیں دے۔ لیکن اس کے باوجود مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ کچھ وکلاء کی یہ خواہش ہے کہ اس کو حکومت مخالف رنگ دیا جائے اور سازش سے تعبیر کیا جائے۔‘‘
بحریہ ٹاؤن منصوبے کے خالق ملک ریاض کا الزام ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار ان سے یہ کہہ کر کروڑوں روپے کے مالی فوائد حاصل کرتے رہے کہ وہ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کے فیصلے ملک ریاض کے حق میں حاصل کرنے کے لیے اپنے والد کو آمادہ کریں گے۔
ملک ریاض نے رواں ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ ان کی چیف جسٹس سے رات کے اندھیرے میں ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں جن میں ارسلان افتخار بھی موجود تھا۔ لیکن از خود کارروائی پر بنائے مقدمے کو سپریم کورٹ نے نا کافی شواہد کی بنا پر جمعرات کو خارج کر دیا تھا۔