جاسوسی کے جرم میں امریکہ میں قید اسرائیلی جاسوس جوناتھن پولارڈ کے وکلا کا کہنا ہے کہ حکام نے انھیں نومبر میں 30 سال کی سزا کے بعد جیل سے رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
محکمہ انصاف کے تین رکنی پرول کمیشن نے یہ فیصلہ وفاقی حکام کی طرف سے پولارڈ کی رہائی کے بارے میں کسی قسم کا اعتراض نہ اٹھانے کے بعد کیا۔ حکام کا ماننا ہے کہ اب جوناتھن مزید جرائم نہیں کرے گا۔
جنوبی کیرولائنا کی جیل سے اپنے وکیل کے ذریعے پیغام میں جوناتھن نے کہنا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ ایستھر سے "دوبارہ ملنے کا منتظر" ہیں۔
"میں امریکہ، اسرائیل اور دنیا بھر میں ہزاروں خیرخواہوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری حمایت میں ریلیاں نکالیں، خطوط بھیجے، منتخب حکام کو فون کیے اور میری بھلائی کے لیے دعائیں کیں۔"
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے جوناتھن کی ممکنہ رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بارہا یہ معاملہ امریکی رہنماؤں کے سامنے اٹھایا تھا۔
ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے جوناتھن پولارڈ ایک امریکی یہودی ہیں، جنہیں 1985ء میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔
گرفتاری کے وقت وہ امریکی بحریہ کے لیے ایک تجزیہ کار کے طور پر کام کر رہے تھے، ان پر ہزاروں خفیہ دستاویزات اسرائیل کو فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
جوناتھن کے حامیوں کا کہنا ہے وہ امریکہ کے ایک 'بہت قریبی اتحادی' کے لیے کام کر رہے تھے اور ایک دوست ملک کے لیے جاسوسی کی پاداش میں عمر قید کی سزا بہت زیادہ ہے۔
لیکن امریکی فوجی حکام بشمول جوناتھن کی گرفتاری کے وقت امریکی وزیر دفاع کیسپر ویئنبرجر کا موقف رہا کہ جوناتھن ایک غدار ہے اور اس نے ملک کو "ناقابل تلافی" نقصان پہنچایا۔
جوناتھن کی طرف سے چرائی گئی بعض معلومات سابق سویت یونین کے ہاتھ بھی لگ گئی تھی۔
اسرائیل نے 1987ء میں جوناتھن کے معاملے میں اپنے کردار پر امریکہ سے معافی بھی مانگی تھی لیکن 1998ء تک اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ اس نے اس کام کے لیے جوناتھن کو معاوٖضہ ادا کیا۔
1995ء میں اسرائیل نے جوناتھن کو اپنی شہریت دے دی تھی۔
منگل کو امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اس بات کی تردید کی کہ پولارڈ کی ہونے والی رہائی کا مقصد ایران کے جوہری معاہدے پر اسرائیل کی امریکہ سے خفگی کو کم کرنا ہے۔