پروفیسر فرانک بوتھ کے مطابق ہم نے اس تحقیق میں ظاہر کیا ہے کہ کچھ لوگوں میں سستی اور کاہلی کا پایا جانا دراصل موروثی بھی ہو سکتا ہے۔
ایک نئی تحقیق سے بہت سے سست اور کاہل لوگوں کے سر سے کام چور ہونے کا الزام ہٹ جائیگا کیونکہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اپنے نصیب میں سستی اور کاہلی لکھوا کر لاتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ایسے لوگوں کی پروگرامنگ ہی تھوڑی سست ہوتی ہے جنھیں انگریزی زبان میں' کاؤچ پوٹیٹو ' کا نام دیا جاتا ہے۔
حالیہ تحقیق میں سائنسدانوں نے پتا لگا یا ہے کہ سستی اور کاہلی جیسی خصوصیات وراثت سے ملتی ہیں۔ کچھ لوگوں میں کسی بھی کام اور جسمانی مشقت کی طرف مائل نہ ہونے کی وجہ ان کے جین میں موجود ہوتی ہے۔
یہ تحقیق 'امریکن جرنل آف فزیالوجی' میں شائع کی گئی ہے۔ محقیقین نے کاہلی کا وراثت سےتعلق ظاہر کرنے کے لیے پھرتیلے چوہوں اور سست چوہوں کی دس نسلوں کو ایک تحقیق میں شامل کیا ۔ جس کے نتیجے میں ماہرین یہ نتیجہ اخذ کر پائے کہ کاہلی ایک موروثی خاصیت ہے جو لوگوں کی کام کرنے کی خواہش پر اثر انداز ہوتی ہے۔
پروفیسر فرانک بوتھ کے مطابق ہم نے اس تحقیق میں ظاہر کیا ہے کہ کچھ لوگوں میں سستی اور کاہلی کا پایا جانا دراصل موروثی بھی ہو سکتا ہے۔
اس تحقیق میں چوہوں کی پھرتی یا کاہلی کا جائزہ لینے کے لیے انھیں چھ روز تک ایک پنجرے میں رکھا گیا اور دیکھا گیا کہ پنجرے میں لگے گھومتے پہیے پر وہ خود سے کتنی بار دوڑتے ہیں۔
پھر ان میں سے 26 پھرتیلے چوہوں اور 26 سست چوہوں کا انتخاب کیا گیا اور دونوں خصوصیات کے حامل چوہوں کی علیحیدہ علیحیدہ افزائش کی گئی۔ یوں ان چوہوں کی دس نسلیں تیار کی گئیں۔
اس عمل سے حاصل ہونے والی پھرتیلے چوہوں کی نسل اور کاہل چوہوں کی نسل کے ساتھ ایک بار پھرسے وہی گھومتے پہیے پر دوڑنے کا عمل دہرایا گیا جس میں پھرتیلے چوہے کاہل چوہوں کی نسبت دس بار ذیادہ دوڑے۔
تحقیق دانوں نےاپنے تجزیے میں چوہوں کی جسمانی ساخت اور چوہوں کے مسلز سیلز میں پائے جانے والے مائیٹو کونڈریا (توانائی پیدا کرنے والا عضو) کی شرح کا موازنہ کیا اور نتیجہ حاصل کیا کہ کس طرح جین توانائی پر اثر انداز ہوتی ہے ۔
اس تحقیق میں شامل ڈاکٹر مائیکل رابرٹس نے کہا اگرچہ ہمیں دونوں نسلوں کے چوہوں کی جسمانی ساخت اور مائیٹو کونڈریا کی شرح میں کوئی واضح فرق نہیں ملا لیکن اس تجربے کے نتیجے میں ہم یہ جان پائے ہیں کہ دونوں نسلوں کے درمیان جنیاتی فرق واضح طور پر موجود تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دماغ کے صرف ایک حصے میں 17 ہزار سے ذائد مختلف اقسام کے جین موجود ہوتے ہیں جن میں سے ہم نے 36 ہزار ایسے جین کی شناخت کی ہے جو جسمانی مشقت کی طرف مائل ہونے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔