بھارتی افواج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ فرسودہ دفاعی آلات اور ہتھیاروں کی کمی کے باعث بھارت کی دفاعی صلاحیتیں کمزور ہوچکی ہیں۔
بھارتی افواج کے سربراہ وی کے سنگھ نے فوج کی اس صورتِ حال کا نقشہ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کو بھیجے جانے والے ایک حالیہ خط میں کھینچا ہے جس کے اقتباسات بدھ کو ایک بھارتی اخبار نے شائع کیےہیں۔
اخبار 'ڈی این اے' کے مطابق خط پر 12 مارچ کی تاریخ درج ہے اور اس میں جنرل سنگھ نے بھارتی فوج کے اہم جنگی دستوں، بشمول توپ خانے اور پیدل فوج کی صورتِ حال کو "تشویش ناک" قرار دیا ہے۔
خط میں فوجی سربراہ کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کے پاس موجود ٹینکوں کا دستہ "ناگزیر گولہ بارود سے محروم" ہے جب کہ فضائی دفاعی نظام 97 فی صد تک زائد المیعاد ہوچکا ہے۔
بھارتی فوجی سربراہ کے مطابق فوج کا پیدل فوجی دستہ کئی طرح کی کمزوریوں کا شکار ہے اور اس کے پاس رات میں لڑائی کے لیے درکار آلات کی قلت ہے جب کہ اعلیٰ فوجی دستے ضروری ہتھیاروں کی پریشان کن حد تک کمی کا شکار ہیں۔
خط کا متن منظرِ عام پر آنے کے بعد بدھ کو یہ معاملہ بھارتی پارلیمان میں بھی موضوعِ بحث بنا رہا جہاں وزیرِ دفاع اے کے انتھونی نے قانون سازوں کو بتایا کہ ان کی حکومت سیکیورٹی سے متعلق تیاریوں کو اولین ترجیح دیتی ہے۔
ایوان کی کاروائی کے دوران میں قانون سازوں نے خط کے منظرِ عام پر آنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ بعض اراکین کا کہنا تھا اگر ذرائع ابلاغ کو خط فراہم کرنے میں فوجی سربراہ کا ہاتھ ہے تو انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے۔
واضح رہے کہ جنرل سنگھ کی ریٹائرمنٹ کی عمر کے بارے میں ان کے اور سول حکومت کے درمیان حالیہ مہینوں میں تنازع رہا ہے جس کے باعث فوجی سربراہ اور حکومت کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں ۔
جنرل سنگھ کا موقف ہے کہ فوج کے ریکارڈ میں موجود ان کی تاریخ پیدائش درست نہیں اور وہ نسبتاً کم عمر ہیں لیکن بھارتی سپریم کورٹ ان کے اس دعویٰ کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے۔
رواں ہفتے جنرل سنگھ نے یہ بیان دے کر ایک اور تنازع کو جنم دیا تھا کہ انہیں فوج کے استعمال کے لیے غیر معیاری ٹرک خریدنے کی صورت میں 28 لاکھ ڈالر رشوت کی پیش کش کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ بھارتی فوج دنیا کی دوسری بڑی فوج تصور کی جاتی ہے اور دفاعی ماہرین کے مطابق اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
گو کہ بھارتی حکومت نئے ہتھیاروں اور آلات کی خریداری پر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ فوج کو جدید بنانے کا عمل سست رفتاری کا شکار ہے۔