لبنان میں فوجی سربراہ صدر منتخب، کیا سعودی اثر و رسوخ بحال ہو رہا ہے؟

لبنان کے نومنتخب صدر جوزف عون، فوٹو رائٹرز 9 جنوری 2025

  • لبنان میں آرمی چیف کو صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔
  • لبنان میں 2022 سے کوئی سربراہ مملکت نہیں تھا۔
  • آئین میں صدارتی عہدہ مسیحیوں کے نمائندے کے لیے مخصوص ہے۔
  • 60 سالہ عون 2017 سے امریکی حمایت کی حامل لبنانی فوج کے کمانڈر رہے ہیں۔
  • یہ انتخاب ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے اثر و رسوخ میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

لبنان کی پارلیمنٹ نے جمعرات کو فوج کے سربراہ جوزف عون کو ملک کا سربراہ منتخب کر لیا ہے اور صدر کے عہدے پر ایک ایسے جنرل فائز ہو گئے ہیں جنہیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔

یہ انتخاب اس بات کا عکاس ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اپنی پریشان کن جنگ کے بعد ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ کا ااثر و رسوخ متاثر ہوا ہے۔

اس انتخاب سے لبنان اور وسیع تر مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کی بھی عکاسی ہوئی ہے جب کہ شیعہ مسلم گروپ حزب اللہ گزشتہ سال کی جنگ کے بعد اور دسمبر میں اپنے شامی اتحادی بشار الاسد کا تختہ الٹے جانے کے بعد بری طرح متاثر ہوا ہے۔

یہ اقدام اس بات کا بھی مظہر ہے کہ ملک میں سعودی اثر و رسوخ بحال ہو گیا ہے جہاں اس سے قبل ایران اور حزب اللہ کی وجہ سے ریاض کا کردار گہنا گیا تھا۔

لبنان کے نو منتخب صدر جوزف عون متخب ہونے کے بعد بیروت کے صدارتی محل میں ، فوٹو اے پی 9 جنوری 2025

لبنان میں صدر کیسے منتخب ہوتا ہے

لبنان کے آئین میں صدارتی عہدہ مسیحی آبادی کی سیاسی امور میں شراکت کے لیے مسیحیوں کے نمائندے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

لبنان کی 128 رکنی پارلیمنٹ میں کسی بھی امیدوار کو صدر منتخب ہونے کے لیے 86 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ تاہم پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کے مطابق جنرل جوزف عون پہلے راؤنڈ میں 86 ووٹ نہیں لے سکے تھے۔ تاہم وہ دوسرے راؤنڈ میں 99 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔

صدارت کی نشست اکتوبر 2022 میں صدر میشال عون کی مدت صدارت کے اختتام کے بعد سے خالی تھی اور سیاسی دھڑوں میں انتہائی گہرے اختلافات کی وی سے وہ کسی بھی ایسے امیدوار پر متفق ہونے میں ناکام رہے جو پارلیمنٹ سے اپنے لیے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکے۔

بیروت میں لبنانی قانون ساز صدر کے انتخاب کےلیے پارلیمانی سیشن میں ، فوٹو اے ایف پی 9 جنوری 2025

حزب اللہ کے ایک مخالف کرسچین قانون ساز میشال معوض نے، جنہوں نے عون کو ووٹ دیا تھا، ووٹنگ سے قبل رائٹرز کو بتایا کہ’’ بین الاقوامی کمیونٹی کی جانب سے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ لبنان کی مدد کے لیے تیار ہیں لیکن وہاں ایک صدر اور حکومت ہونی چاہیے۔ ‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ، ’’ ہمیں سعودی عرب سے مدد کا ایک پیغام ملا ہے۔‘‘

سعودی رائل کورٹ کے ایک قریبی ذریعے نے کہا ہے کہ فرانس، سعودی اور امریکی سفیروں نے حزب اللہ کے قریبی اتحادی بری کو بتایا کہ سعودی عرب سمیت بین الاقوامی مالی معاونت عون کے انتخاب پر منحصر ہے۔

لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری صدر کے انتخاب کے لیے بلائے گئے پارلیمانی سیشن کی صدارت کے دوران ، فائل فوٹو اے ایف پی 9 جنوری 2025

لبنان کی تعمیر نو کا تخمینہ

عون کا انتخاب ایک ایسے ملک میں سرکاری اداروں کی بحالی کی جانب پہلا قدم ہے جہاں دو سال سے زیادہ عرصے سے نہ تو کوئی سربراہ مملکت تھا اور نہ ہی بااختیار کابینہ۔

لبنان کو، جس کی معیشت ابھی تک 2019 کے تباہ کن معاشی انحطاط سے متاثر ہے، جنگ کی تباہی کے بعد تعمیر نو کے لیے بین لاقوامی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ لبنان کی تعمیر نو پر ساڑھے آٹھ ارب ڈالر لاگت آئے گی۔

لبنان کے حکومتی نظام میں نئے صدر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک نئی کابینہ بنانے کے لیے قانون سازوں کی مشاورت سے ایک سنی مسلم وزیر اعظم نامزد کرے ۔ یہ وہ عمل ہےجو وزارتی قلم دانوں پر دھڑے بندی کے باعث طول کھینچ سکتا ہے۔

لبنانی فوج کے اہلکار صدر کے انتخاب سے قبل پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے سیکیورٹی کے لیے موجود ہیں، فوٹو اے پی 9 جنوری 2025

عون کا حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر میں واشنگٹن اور پیرس کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کو آگے بڑھانے میں اہم کردار تھا۔ جنگ بندی کی شرائط تقاضا کرتی ہیں کہ لبنان کی فوج جنوبی لبنان میں تعینات ہو اور وہاں سے اسرائیلی فوجیوں اور حزب اللہ کی فورسز کا انخلا کیا جائے۔

60 سالہ عون 2017 سے امریکی حمایت کی حامل لبنانی فوج کے کمانڈر رہے ہیں۔امریکہ کی حزب اللہ کے اثر و رسوخ کو کچلنے کے لیے ریاستی اداروں کی مدد پر مرکوز امریکہ کی پالیسی کے تحت لبنانی فوج کو عون کی نگرانی میں امریکی امداد ملتی رہی ہے۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔