پاکستان کی سیاسی صورتِ حال اور اتوار کو قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنے کی اسپیکر کی رولنگ پر قانونی ماہرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ بیشتر وکلا کا کہنا ہے کہ اسپیکر کے پاس تحریکِ عدم اعتماد کی کارروائی کو مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا جب کہ بعض وکلا اسے قانون کے مطابق قرار دیتے ہیں۔
ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب اسپیکر کے اس نوعیت کے اقدامات کو عدالتوں نے غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
اُن کے بقول اگر پارلیمانی معاملات میں رکاوٹ آ رہی ہو تو عدالت اس میں مداخلت کر سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے برطانوی پارلیمنٹ میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے 'بریگزٹ' کی مثال دی۔
اُن کا کہنا تھا کہ 'بریگزٹ' پر برطانوی پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے اسپیکر نے اس معاملے پر بلایا گیا اجلاس بحث کرائے بغیر ملتوی کر دیا تھا۔ تاہم برطانیہ کی سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے انہیں اجلاس دوبارہ بلا کر بحث کرانے کی ہدایت کی تھی۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس خاص طور پر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس مرحلے پر ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے ووٹنگ کی اجازت نہ دینا غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام ہے اور یہ آئینی ضرورت تھی کہ ووٹنگ کایہ عمل مکمل کیا جاتا۔
البتہ حکومت کے حامی بعض وکلا کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت ایوان میں دی گئی اسپیکر کی رائے اور فیصلوں کو تحفظ حاصل ہے اور انہیں کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کی سیاست میں بیرونی مداخلت کے الزامات: یہ کہانی بہت پرانی ہےاسی طرح بعض قانونی ماہرین سلمان اکرم راجہ سے مختلف مؤقف رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل چودھری فیصل حسین ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے اندر ہونے والی کارروائی کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔
چودھری فیصل کا کہنا تھا کہ ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق کارروائی بھی پارلیمانی عمل کا حصہ ہوتی ہے جسے ان کے بقول آئین کے آرٹیکل 69 تحت تحفظ حاصل ہوتاہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل پانچ، بنیادی نوعیت کا آرٹیکل ہے جس میں ملک سے وفاداری کا تذکرہ ہے۔
اُن کے بقول اس آرٹیکل کا سہارا لے کر تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کو نہیں روکا جا سکتا۔
احمد بلال کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 95 کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے جس کا تعلق عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ سے ہے۔
اُن کے بقول اس آرٹیکل کے تحت اگر قومی اسمبلی میں اراکین کی اکثریت قائدِ ایوان پر اعتماد نہ کرے تو وہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے۔
احمد بلا ل کا کہنا تھاکہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے آئین کی پابندی کرنا لازمی ہے اور ان کےبقول قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر کی شق 37 کے مطابق جب تک تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل مکمل نہ ہوجائے اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
احمد بلال کا کہنا تھا کہ اسپیکر کے فیصلے کی آئینی حیثیت کا تعین ان کے بقول سپریم کورٹ ہی کرے گی۔
اُن کے بقول اگر یہ معاملہ جلد عدالت میں جلد طے نہیں ہوتا ہے تو پھر ملک کو درپیش سیاسی بحران کو عام انتخابات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
لیکن سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل اسپیکر کے اقدامات کا تعین کرنا ضروری ہو گا کہ یہ آئینی تھے یا غیر آئینی۔
اُن کے بقول تحریکِ عدم اعتماد جو آئین اور پارلیمان کے قواعدوضوابط کے تحت پیش کی گئی تھی اس پر ووٹنگ کا ایک باقاعدہ طریقۂ کار آئین میں موجود ہے جس سے انحراف ممکن نہیں ہے۔
SEE ALSO: آئین کی وہ شقیں جو اس وقت پاکستان میں موضوعِ بحث ہیںاتوار کو قومی اسمبلی میں کیا ہوا تھا؟
پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اتوار کو ایوان کی مختصر کارروائی کے بعد وزیراعظم عمران خان کے خلاف حز ب اختلاف کی پیش کردہ تحریکِ عدم اعتماد کو بغیر ووٹنگ کروائے غیر آئینی قرار دے کر مستر کر دیا تھا۔
ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ میں کہا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ اس لیے نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اسے مبینہ طور پر ایک بیرونی ملک کی حمایت حاصل ہے۔
اس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت نے پاکستان کی قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے ڈپٹی اسپیکر کےفیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی کی کارروائی اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے تمام ریاستی عہدے داروں کو کوئی بھی ماورائے آئین اقدام کرنے سے روک دیا ہے۔
تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ چند ہفتوں سے جاری سیاسی بحران ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کے بعد ایک آئینی بحران میں تبدیل ہو گیا ہے۔