منحرف جنرل کا کہنا تھا کہ ان کی فورسز پوری شدت کے ساتھ عسکریت پسندوں کے خلاف دوبارہ کارروائی کریں گی۔
لیبیا میں ایک منحرف جنرل کی قیادت میں قائم خودساختہ لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) نے مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف مزید کارروائی شروع کرنے سے پہلے بن غازی کے مختلف حصوں سے شہریوں کو علاقہ چھوڑنے کا کہا ہے۔
اس انتباہ کے بعد اس ساحلی شہر کے مغربی علاقوں سے خاندانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا سامان باندھ کر دوسرے علاقوں کو منتقل ہونا شروع ہو گئی ہے۔
مغربی علاقوں میں جمعہ کو عسکریت پسندوں اور سابق جنرل خلیفہ حفتر کے حامی فورسز کے درمیان شدید لڑائی ہوئی تھی جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔
فوجی وردی میں ملبوس حفتر نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ ایک حکمت عملی کے طور پر بن غازی سے فی الوقت نکل آئیں۔
صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "ہم قوت کے ساتھ واپس آئیں گے، ہم نے یہ لڑائی شروع کی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول تک ہم اسے جاری رکھیں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور پارلیمنٹ اپنی قانونی حیثیت کھو چکی ہے کیونکہ وہ سلامتی کی ذمہ داریاں ان کے بقول پوری کرنے میں ناکام رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے فوجی لیبیا کے بہت سے مشرقی علاقوں میں بھی پھیل چکے ہیں۔ "لیبیا کے عوام ہمارے ساتھ ہیں"۔
ادھر طرابلس میں پارلیمنٹ کے اسپیکر اور فوج کے کمانڈر انچیف نوری ابو سھمین کا کہنا ہے کہ حفتر نے بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایک نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ " ایل این اے کے ارکان جنہوں نے بن غازی میں جھڑپیں کیں وہ لیبیا کی ریاست کے کنٹرول سے باہر ہیں اور وہ اپنے مفادات کے لیے بغاوت کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزارت صحت کے حکام کا کہنا تھا کہ ان جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 43 ہوگئی ہے جب کہ ایک سو سے زائد لوگ اس میں زخمی بھی ہوئے۔ حفتر کے مطابق لڑائی میں 60 عسکریت پسند اور ان کے چھ فوجی مارے گئے جب کہ 250 شدت پسند اور حفتر کے 37 لوگ زخمی ہوگئے۔
لیبیا کی ایک نیوز ویب سائیٹ نے ہفتہ کو دیر گئے ہلاکتوں کی تعداد 75 بتائی تھی۔
حکام نے بنینہ ہوائی اڈے کو بند کردیا ہے جب کہ مصر نے سلامتی کی صورتحال کے تناظر میں بن غازی کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں۔
اس انتباہ کے بعد اس ساحلی شہر کے مغربی علاقوں سے خاندانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا سامان باندھ کر دوسرے علاقوں کو منتقل ہونا شروع ہو گئی ہے۔
مغربی علاقوں میں جمعہ کو عسکریت پسندوں اور سابق جنرل خلیفہ حفتر کے حامی فورسز کے درمیان شدید لڑائی ہوئی تھی جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔
فوجی وردی میں ملبوس حفتر نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ ایک حکمت عملی کے طور پر بن غازی سے فی الوقت نکل آئیں۔
صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "ہم قوت کے ساتھ واپس آئیں گے، ہم نے یہ لڑائی شروع کی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول تک ہم اسے جاری رکھیں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور پارلیمنٹ اپنی قانونی حیثیت کھو چکی ہے کیونکہ وہ سلامتی کی ذمہ داریاں ان کے بقول پوری کرنے میں ناکام رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے فوجی لیبیا کے بہت سے مشرقی علاقوں میں بھی پھیل چکے ہیں۔ "لیبیا کے عوام ہمارے ساتھ ہیں"۔
ادھر طرابلس میں پارلیمنٹ کے اسپیکر اور فوج کے کمانڈر انچیف نوری ابو سھمین کا کہنا ہے کہ حفتر نے بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایک نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ " ایل این اے کے ارکان جنہوں نے بن غازی میں جھڑپیں کیں وہ لیبیا کی ریاست کے کنٹرول سے باہر ہیں اور وہ اپنے مفادات کے لیے بغاوت کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزارت صحت کے حکام کا کہنا تھا کہ ان جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 43 ہوگئی ہے جب کہ ایک سو سے زائد لوگ اس میں زخمی بھی ہوئے۔ حفتر کے مطابق لڑائی میں 60 عسکریت پسند اور ان کے چھ فوجی مارے گئے جب کہ 250 شدت پسند اور حفتر کے 37 لوگ زخمی ہوگئے۔
لیبیا کی ایک نیوز ویب سائیٹ نے ہفتہ کو دیر گئے ہلاکتوں کی تعداد 75 بتائی تھی۔
حکام نے بنینہ ہوائی اڈے کو بند کردیا ہے جب کہ مصر نے سلامتی کی صورتحال کے تناظر میں بن غازی کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں۔