امریکی ایوان نمائندگان کےاسپیکرکا لیبیا پرامریکی فوجی کارروائی کی قانونی حیثیت کےبارے میں وائٹ ہاؤس سےسخت الفاظ کا تبادلہ ہوا ہے۔
اسپیکرجان بینر اور ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک دونوں پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے کہا ہے کہ قانونی طور پر صدر کو لیبیا کے مشن کے بارے میں کانگریس سےمنظوری لینا چاہیئے، جب کہ وائٹ ہاؤس اِس سے اتفاق نہیں کرتا۔
بدھ کے روز کانگریس کو دی گئی ایک رپورٹ میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ امریکی افواج لیبیا میں ایک محدود مدد کا کردار ادا کر رہی ہیں جو جارحیت کے زمرے میں نہیں آتا، جس کے لیے صدر کو ووٹنگ کے ذریعے منظوری کی ضرورت ہو۔
جمعرات کو بینر نےاس بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ روزانہ ایسی کوششوں پر 10ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے، جن میں لیبیائی لیڈر معمر قذافی کے کمپاؤنڈ پر بمباری اور ڈرون حملے شامل ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں اِس سے واضح طور پریہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ جارحیت میں ملوث ہے، اوراُنھوں نے نیٹو کی قیادت میں ہونے والی کارروائی کے لیے فنڈز میں کٹوتی کرنے کے مقصد سے قانونسازی کی دھمکی دی ہے۔
جمعرات کے دِن ہونے والی وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں یہ اختلاف جاری رہا جب ترجمان جے کارنی نے کہا کہ صدر، بینر کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُنھوں نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ لیبیا میں کوئی امریکی فوجی موجود نہیں، امریکی فوجیں فائر کے تبادلے میں عملی حصہ نہیں لی رہی ہیں اور اِس کارروائی کے دوران امریکہ کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
امریکی قانون کے1973ء کے جنگی اختیارات کے ایکٹ کی رو سے امریکی افواج پر لازم ہے کہ کانگریس کی جانب سے اختیارات دیے جانے کی صورت میں 90روز کے اندر اندر فوجی کارروائی سے الگ ہوجائیں۔