لیبیا کے وزیر خارجہ مستعفی، حکومت کی تردید

(فائل فوٹو)

اخبارات ’نیو یارک ٹائمز‘اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے حکام کے حوالے سے خبریں دی ہیں کہ سی آئی اے کے اہلکار لیبیا میں باغی فورسز کی استعداد کا جائزہ لیں گے تاکہ اُنھیں براہ راست فوجی ساز و سامان کی فراہمی سے متعلق بہتر فیصلہ کیا جا سکے۔

لیبیا کے وزیر خارجہ موسیٰ قصیٰ برطانیہ پہنچ گئے ہیں اور اُنھوں نے معمر قذافی کی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔

برطانوی وزارت خارجہ کے مطابق موسیٰ قصیٰ اپنی مرضی سے تیونس کے راستے لندن پہنچے جہاں اُنھوں نے حکام کو بتایا کہ وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ برطانوی حکام نے معمر قذافی کے دیگر حامیوں کو بھی کہا ہے کہ وہ لیبیا کے رہنما کا ساتھ چھوڑ دیں۔

البتہ لیبیا میں ایک سرکاری ترجمان نے موسیٰ قصیٰ کے منحرف ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک ”سفارتی مشن“ پر برطانیہ میں ہیں۔

لیبیا کے انصاف اور داخلہ اُمور کے وزراء ملک میں احتجاج کی لہر کے بعد اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کے بعد پہلے ہی باغیوں سے الحاق کر چکے ہیں۔

امریکی حکام نے موسیٰ قصیٰ کے مستعفی ہونے کو ایک ”انتہائی اہم “ پیش رفت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حکومتی عہدے داروں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کی ایک مثال ہے۔ وزیر خارجہ مسٹر قذافی کے ایک انتہائی قریبی ساتھی تھے اور وہ 10 سال سے زائد عرصے تک وہ اُن کے انٹیلی جنس کے سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔

دریں اثنا امریکی اخبارات کے مطابق سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے لیبیا میں خفیہ معلومات حاصل کرنے اور معمر قذافی کے مخالفین سے رابطے قائم کرنے کے لیے اپنی ٹیمیں لیبیا بھیج دی ہیں۔

اخبارات ’نیو یارک ٹائمز‘اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے حکام کے حوالے سے خبریں دی ہیں کہ سی آئی اے کے اہلکار لیبیا میں باغی فورسز کی استعداد کا جائزہ لیں گے تاکہ اُنھیں براہ راست فوجی ساز و سامان کی فراہمی سے متعلق بہتر فیصلہ کیا جا سکے۔

برطانوی ذرائع نے ’نیو یارک ٹائمز‘ کو بتایا کہ برطانوی سپیشل فورسز اور انٹیلی جنس اہلکار بھی شمالی افریقہ کی اس ریاست میں موجود ہیں۔

مزید برآں وائٹ ہاؤس نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ امریکہ نے لیبیا میں باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت دیا گیا ہے جب بعض رپورٹس کے مطابق صدر براک اوباما نے حکومت مخالف باغیوں کی پس پردہ مدد کی منظوری دے دی ہے۔