خانہ جنگی اور سیاسی تقسیم کا شکار لیبیا اب بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کی وجہ سے شدید تباہی کا سامنا کررہا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق شدید بارش کے بعد متعدد ڈیمز ٹونٹے کے باعث لیبیا کا مشرقی بندر گاہی شہر درنہ کا 25 فی صد حصہ پانی میں ڈوب چکا ہے اور یہاں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ہلالِ احمر کے لیے لیبیا کے نمائندے تمر رمضان کے مطابق غیر معمولی سیلاب کے باعث لیبیا میں کم از کم دس ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پرسی کے مطابق جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے حکام کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بریفنگ دیتے ہوئے تمر رمضان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگلے چند روز کے دوران لیبیا میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتیں کئی ہزار تک پہنچ سکتی ہیں۔
بحیرہ روم میں بننے والا طوفان ڈینیئل لیبیا سے ٹکرایا جس کے باعث اتوار کی رات سے طوفانی برسات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس طوفان سے سب سے زیادہ مشرقی لیبیا کے علاقوں میں تباہی آئی ہے۔
تمر رمضان کا کہنا ہے کہ جمعے کو شمالی افریقہ کا ایک اور ملک مراکش زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ان کے بقول لیبیا میں بھی مراکش کی طرح بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے جو خطے میں آنے والا ایک بڑا بحران ثابت ہوگا۔
سیلاب سے متاثرہ مشرقی لیبیا میں قائم حکومت کے وزیرِ اعظم اسامہ حماد کا کہنا ہے کہ درنہ میں زیادہ تر افراد ممکنہ طور پر ڈیمز ٹوٹنے کے باعث آنے والے ریلے میں بہہ گئے ہیں۔
لبین ہلالِ احمر کے مطابق منگل کو اس نے درینہ میں 300 لاشیں وصول کی ہیں جب کہ حکومت نے شہر کو ڈیزاسٹر زون قرار دے دیا ہے۔ حکام کے مطابق شہر کے مضافات میں عمارتوں کے ملبے تلے متعدد لاشیں دبی ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
مشرقی لیبیا میں طوفان کے باعث سوسا، مرج، اور شحات کے علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت کے مطابق ان علاقوں میں ہزاروں خاندانوں کو اسکولز اور دیگر سرکاری عمارات میں قائم امدادی کیمپوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔
سیلاب کے باعث تباہی کا شکار ہونے والا شہر درنہ اپنے سفید مکانات اور پام کے باغات کی وجہ سے پہچان رکھتا ہے۔ یہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے 900 کلو میٹر مشرق میں واقع ہے۔ یہاں قائم حکومت کو طاقتور ملٹری کمانڈر خلیفہ حفتر کی حمایت حاصل ہے۔ جب کہ طرابلس میں اس کی مخالف حکومت ہے اور دیگر مسلح گروپس اس کے اتحادی ہیں۔
درنہ کا زیادہ تر حصہ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اٹلی کے قبضے کے دوران تعمیر ہوا تھا۔ 2011 میں جب معمر قذافی کے خلاف شدت پسند گروہوں نے بغاوت کا آغاز کیا تو درنہ لیبیا میں ان باغی گروپس کا بڑا مرکز تھا۔ اس بغاوت کے بعد مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو نے لیبیا میں مداخلت کی تھی۔
امدادی کارروائیوں میں سب سے بڑی رکاوٹ
لیبیا میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے ملک انتظامی طور پر مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہے۔
لیبیا میں اس تقسیم کا آغاز 2011 میں اس وقت کے صدر معمر قذافی کے خلاف اٹھنے والی تحریک سے ہوا تھا۔ اکتوبر 2011 میں باغیوں نے صدر قذافی کو قتل کردیا جس کے بعد ملک بھر میں مسلح گروپ مضبوط ہونے لگے۔
لیبیا میں بغاوت کرنے والے مختلف گروپس نے 2012 میں جنرل نیشنل کانگریس تشکیل دے کر ایک عبوری حکومت بنائی جس نے انتخابات کا اعلان بھی کیا تھا۔ عبوری حکومت کے قیام کے باوجود انتظامی اعتبار سے مقامی مسلح گروپس اپنے اپنے علاقوں میں بااختیار تھے۔
عبوری حکومت میں اسلام پسند مسلح گروپس کو اکثریت حاصل تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ دیگر گروپس کے ساتھ ان کے اختلافات بڑھنا شروع ہو گئے۔ اگلے ایک برس کے دوران مختلف گروپس کے بڑھتے اختلافات کی وجہ سے نیشنل کانگریس کی عبوری حکومت مزید کمزور ہو گئی اور انتخابات بھی ملتوی ہو گئے۔
اسی دوران 2014 میں قذافی دور میں فوج کے جنرل رہنے والے خلیفہ حفتر نے لبین نیشنل آرمی گروپ کے نام سے نیا گروپ منظم کیا اور اسلام پسند مسلح گروپس سے لڑائی شروع کردی۔
لیبیا میں 2014 میں پارلیمانی انتخابات ہوئے جسے ہاؤس آف ریپریزینٹیٹو (ایچ او آر) کا نام دیا گیا۔ نیشنل کانگریس کی عبوری حکومت نے انتخابی نتائج مسترد کردیے اور ایک نئی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا جسے مغربی لیبیا کے گروپس کی تائید حاصل تھی۔
نو منتخب پارلیمنٹ ایچ او آر دارالحکومت طرابلس سے مغربی لیبیا منتقل ہوگئی۔ اسے خلیفہ حفتر کی مدد حاصل تھی۔ اس طرح لیبیا انتظامی طور پر مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ 2015 میں متحارب گروپس کے ایک معاہدے میں لیبیا کی پارلیمنٹ (ایچ او آر) کو تسیلم کرلیا گیا اور نیشنل کانگریس کو ہائی اسٹیٹ کونسل کا درجہ دے دیا گیا۔ اس معاہدے کے بعد بھی لیبیا مشرق و مغرب میں تقسیم رہا۔
مشرقی اور مغربی لیبیا کا کنٹرول رکھنے والے گروپس نے 2021 میں گورنمنٹ آف نیشنل یونٹی کے تحت حکومت بنانے پر اتفاق کیا۔ لیکن مشرق میں ایچ او آر اور مغرب میں ایچ ایس سی کے آئین پر متفق نہ ہو سکے۔
اب دونوں ہی نمائندہ باڈیز کہتی ہیں کہ یونٹی گورنمٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے تاہم وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ نے حکومت چھوڑنے سے انکار کردیا۔
مشرقی لیبیا میں ایچ او آر نے ایک حکومت قائم کردی لیکن یہ طرابلس پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکی۔ اس کی وجہ سے دارالحکومت طرابلس یونٹی حکومت کے پاس ہے اور مشرقی و مغربی گروپس کے درمیان ڈیڈلاک قائم ہے۔
مشرق و مغرب کی اس سیاسی تقسیم کے باعث تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا میں انفراسٹرکچر اور انتظامی ڈھانچہ پہلے ہی تباہ حال اور موجودہ سیلاب نے لیبیا میں صورتِ حال کو مزید سنگین کردیا ہے۔
اس تحریر کے لیے خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔